Saturday 8 November 2014

واہگہ اور کوٹ رادھا کشن

پچھلے کچھ دنوں میں اس ملک پر کئی ناگہانی آفات گزری ہیں۔ ان تمام واقعات میں سے دو بڑی  آفتیں کئی قیمتی جانوں کے نقصان کا باعث بنی ہیں۔ ایک واقعے میں واہگہ بارڈر پر ہونے والے خود کش دھماکے میں 61   جانوں کا نقصان ہوا۔ اس حادثے میں ہلاک ہونے والوں میں عورتوں اور بچوں کی بھی ایک بڑی تعداد شامل ہے جبکہ ایک ہی خاندان کے کئی افراد بھی اس دہشت گردی کا نشانہ بنےہیں۔   دوسرے واقعے میں پنجاب کے ایک گاؤں کوٹ رادھا کشن میں اینٹوں کے بھٹے پر کام کرنے والے دو افراد(میاں بیوی  )کو مشتعل افرا د کے ایک گروہ نے توہین ِ مذہب کے جھوٹے الزام پر تشدد کرنے کے بعد جلتی ہوئی بھٹی میں پھینک کر زندہ جلا دیا۔  یہ دونوں افسوسناک واقعے مذہبی شدت پسندی کے زہرِ قاتل کے دو رخ ہیں ۔ پہلے واقعے میں طالبان نے اسلام کے نام پر کئی معصوم اور بے گناہ افراد کو ہلاک کیا جبکہ دوسرے واقعے میں ایک ظالم مالک نے اپنی وحشی جبلت اور ظلم وجبر کو چھپانے کے لیے جس طرح اسلام کو بدنام کیا ہے وہ حکومتِ پاکستان ، مملکت ِ پاکستان اور اس کے باسیوں پر ایک بدنما داغ ہے۔

اینٹوں کے بھٹے پر گزرنے والی دردناک زندگیوں کی روداد  اگر کسی کو جاننے کی خواہش ہے تو وہ شوکت صدیقی کے طویل ناول "جانگلوس" کا مطالعہ کرے۔ بھٹے کا مالک کس طرح اپنے ملازمین (یہاں غلام لکھنا  زیادہ بہتر ہوتا) کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے اور جب وہ دیکھتا ہے کہ اس کے غلام مزید اذیت بھری زندگی گزارنے سے انکاری ہیں تو وہ انہیں ڈرانے دھمکانے  یا سبق سکھانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتا ہے  ۔ اس میں مار پیٹ ، بھوک پیاس، ذلت و بے عزتی کے ساتھ موت جیسے دردناک انجام بھی شامل ہوتے ہیں۔ کئی برسوں بعد جب میں نے  2013 میں اس عظیم ناول کا دوبارہ مطالعہ کیا تو میں نے دل میں سوچا کہ شائد  اب ظلم اور بربریت  کا ایسا کھلا مظاہرہ پاکستان  میں نہیں ہوتا ہو گا۔ اخبارات ، ٹی وی، اور انٹرنیٹ سے مزین ہمارے جدید پاکستان میں بھٹے کے مالکان کم ازکم کسی کو غلاموں کی طرح کام کرنے پر مجبور نہیں کر سکتے ہوں گے۔  مگر کوٹ رادھا کشن کے اس واقعے نے  میری غلط فہمی دور  کردی۔

بھٹے کے مالکان کسی بھی طرح خرکار کیمپ اور بے گار کیمپوں سے مختلف نہیں ہوتے ۔ جہاں لوگوں کو اغوا  کرنے کے بعد ان کی مرضی کے خلاف ان سے مشقت لی جاتی ہے اور بدلے میں دو وقت کی روٹی اور سال میں دو جوڑے فراہم کیے جاتے ہیں۔  طریقہ کار بھی اب تک ویسا کا ویسا ہی ہے جیسا آج سے پچاس سال پہلے کے پاکستان  میں شوکت صدیقی نے بیان کیا تھا۔ اغوا تو اب شائد نہیں کیا جاتا لیکن معاشی مشکلات کا شکار غریب لوگوں کو پہلے پہل نوکری دینے کے بہانے گھیر گھار کر ان اینٹوں کے بھٹے پر لایا جاتا ہے اور پھر "مدد" کے نام پر سودی قرضوں سے انہیں ایسا جکڑا جاتا ہے کہ وہ زندگی پھر ان زنجیروں سے آزاد نہیں ہوپاتے۔ ایک بار جب یہ قرضہ کوئی لے لے تو پھر جب تک وہ زندہ رہتا ہے اس وقت تک انہیں اینٹوں کے بھٹے سے نجات نہیں ملتی، ہاں یہ ضرور ہوتا ہے کہ اسے سرکشی یا کسی بیماری کی صورت میں دوسرے بھٹے کے مالک کو فروخت کر دیا جاتاہے ۔  اینٹوں کے بھٹے پر ہی ان کی شادیاں ہوتی ہیں اور انہی جگہوں پر ان کی اگلی نسل جنم لیتی ہے اور پھر انہی بھٹو ں میں خاک ہو جاتی ہیں۔  اگر کوئی سرکشی دکھائے  تو اسے کوٹ رادھا کشن جیسے مظلوموں کی طرح صفحہ ء ہستی سے مٹا دیا جاتا ہے۔ یہ ظلم  پاکستا ن  میں کئی عشروں سے جاری و ساری ہے۔   

کوٹ رادھا کشن کے محنت کشوں کا قصور یہ نہیں تھا کہ وہ عیسائی تھے  یا وہ (جھوٹے الزام کے مطابق )مقدس اوراق کی توہین  کے مرتکب ہوئے تھے۔ ان کا سب  سے بڑا قصور یہ تھا کہ انہوں نے اپنی اگلی نسل کو اس بھٹے کی غلامی سے نکالنے کی کوشش کی تھی۔ یہ بدنصیب جوڑا بھٹے کے مالک کے کئی لاکھ روپوں کے مقروض تھے انہیں اس قرضے سے خلاصی کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی ، انہوں نے بھاگنے کی کوشش کی اور بدقسمتی سے پکڑے گئے۔ بھٹے کے مالک نے انہیں  اور بھٹے پر موجود ان جیسے کئی دوسرے غلاموں کو سبق سکھانے کے لیےعبرت کا نمونہ بنانے کی ٹھانی۔ قریب موجود مسجد کے لاؤڈاسپیکر سے توہینِ مذہب کا  فتویٰ  اس وقت تک نشر ہوتا رہا جب تک کوٹ رادھا کشن کے "غیور" مسلمانوں نے ایک مشتعل ہجوم کی صورت اختیار نہیں کر لی۔ اس مشتعل ہجوم نے دونوں بدنصیبوں پر تشد د کیا اور پھر ان کے ادھ موئے جسموں کو اسی بھٹی میں جلا کر خاک کر دیا جہاں وہ اپنی غلامی کے ہاتھوں پہلے ہی کئی سالوں سے جل رہے تھے۔  

ان مظلوموں کا قصور  یہ نہیں تھا کہ وہ عیسائی تھے، نا ہی انہوں نے توہین ِ مذہب کا ارتکاب کیا   جیسا کہ ان پرجھوٹا الزام لگایا گیا ۔ ان کا قصور صرف ایک تھا کہ وہ ایسے معاشرے میں زندہ تھے جہاں عزت کا پیمانہ صرف معاشی لکیروں کو ماپتا ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ ان کی جگہ اگر کوئی مسلمان جوڑا بھی ہوتا  تو اس کا بھی یہی حشر ہوتا  ، فرق صرف اتنا ہوتا کہ اس صورت میں شائد کسی دوسرے راستے کا انتخاب کیا جاتا۔ کوئی پنچائیت، کوئی جرگہ، کوئی گاؤں کا سردار یا  وڈیرہ انہیں ان دیکھے  جرم کا مجرم ثابت کرتا اور ہم کسی مختلف سانحے کی خبریں اخباروں اور ٹی وی میں  پڑھتے  اور دیکھتے۔  میں مزید کیا لکھوں کہ میرا دل زمین الٹائے جانے کے خوف سے کانپتا ہے اور میری روح ایسے معاشرے میں جینے سے بیزار ہوچکی ہےجہاں انسانی زندگی کسی بھی شخص کی طرف سے لگائے گئے اندھے الزاموں پر پلک جھپکتے  میں سانسوں سے محروم ہو جاتی ہے۔  اب بھی ہم اخبار ، ٹی وی، انٹرنیٹ پر دیکھتے ہیں تو  ایک دانشور وں کا طبقہ اپنے دل کی بھڑاس توہین رسالت اور توہین ِ مذہب کے قانونی  سقم پر موشگافیاں کر کے نکالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ جبکہ ایک اور طبقہ اسے پاکستانی معاشرے میں موجود مذہبی انتہا پسندی  کے رنگ کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ یہ دونوں باتیں شائد صحیح ہوں، مگر جو بنیادی وجوہات ہے ان کی طرف کسی نے کوئی اشارہ  نہیں کیا اور نا ہی اسے سدھارنے یا تبدیل کرنے پر کوئی مشورہ میری نظروں سے گزرا ہے۔ مظلوموں کے لواحقین کو ضرور زرعی اراضی اور پچاس لاکھ روپے دیے گئے ہیں مگر یہ نہیں سوچا گیا کہ مستقبل کے کسی مظلوم کو  ہم کیسے اس ظلم کا نشانہ بنانے سے روک سکتے ہیں۔ کیا پنجاب اور سندھ میں ایسےکئی خرکار اور بے گار کیمپوں سے بھی بدتر بھٹے اور کھیت موجود نہیں ہیں؟  اگر ہیں تو کیا ہم نے ان کے لیے کوئی قوانین وضع کیے ہیں؟ اور اگر قوانین موجو د ہیں  (جو کہ بیشک موجود  ہوں گے) تو ا ن پر عمل درآمد کرنے کی ذمہ داری کس مائی کے لعل کی ہے؟ اور وہ مائی کا لعل ایسے واقعات کے دوران کہاں سو رہا ہوتا ہے؟ کیا ہمارے معاشرے میں موجود لوگوں میں اتنی تعلیم، عزتِ نفس اور اخلاقی جرات پائی جاتی ہے کہ وہ اپنے اردگرد ہونے والے ایسے واقعات کو رونما ہونے سے روکنے کی کوئی کوشش کر سکیں؟  اور ایسے مواقع پر قانون کو اپنا راستا خود بنانے پر ترجیح دیں؟اگر ان سب سوالوں کا جواب نہیں ہے تو پھر  ہمیں اپنے ہر سال کے بجٹ میں ایسے کئی واقعات کے لیے کروڑوں روپے مختص کر نے پڑیں گے۔ کیونکہ یہ واقعات  وزراءاعلیٰ کے نوٹس لینے، اعلیٰ افسران کو معطل کرنے، ملزمان کو گرفتار کرنے، اور ان پر مقدمہ درج کرا دینے اور کچھ مہینوں بعد ان سب کو طاقِ نسیاں پر رکھ دینے سے بالکل بھی کم نہیں ہوں گے۔

میرا خیال تھا کہ پاکستان نے ترقی کی بہت سے منازل طے کی ہیں مگر یہ میری خام خیالی ہے ۔ صرف سڑکوں ، عمارتوں، پلوں اور چمکتی دمکتی سواریوں کا نام تو پاکستان نہیں ہے۔ یہ تو ایک قوم کا سوال ۔ ایک ایسی قوم کا جس کا ایک بہت بڑا حصہ انسانی فطرت کی سب سے اہم ضرورت سے محروم ہے۔ یہ ضرورت  روٹی، کپڑا اور مکان نہیں ہے۔ یہ بجلی ، گیس اور پانی بھی نہیں ہے، یہ کسی صورت روزگار اور معیشت کے آسان مواقع بھی نہیں ہے یہ دولفظوں پر مشتمل ایک ایسا احساس ہے جس سے ہم سب محروم کیے جاتے ہیں ۔ یہ  عزتِ نفس ہے!  عزت نفس سے لیس انسان باقی تمام ضروریات کو پورا کرنے کے جذبے سے بھرپور ہو گا۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستانی معاشرے میں انسان کی تکریم  کا سب سے بڑا پیمانہ اس کی معاشی  حالت ہے۔  

میں نے توہین ِ  مذہب اور توہینِ رسالت کے قوانین کا مطالعہ نہیں کیا اور نا ہی میں ان میں موجود کسی سقم کی نشاندہی کرنے کی صلاحیت اور اہلیت رکھتا ہوں۔ لیکن بہ حیثیت انسان جب میں دیکھتا ہوں کہ  کیسے ہمارے معاشرے میں موجود لوگ ایک قانون کے موجود ہوتے ہوئے کسی بھی معصوم اور بے گناہ انسان  کی جان سے کھیل جاتے ہیں تو میں ہر ذی شعور انسان کی طرح  سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ یقیناَ  اس قانون کےعلاوہ بھی کئی دوسری وجوہات ہیں جو ہمیں اسفل سافلین بنا دیتی ہیں ۔  وہ وجوہات کیا  ہیں یہ تو کسی گہرے نفسیاتی و معاشرتی مطالعے  کا متقاضی ہے ۔مگر ان سب کے علاوہ جو بات سب سے واضح ، یقینی  اور صاف ہے وہ ہماری معاشرتی تقسیم ہے۔ ہمارا معاشرہ دو  واضح طبقات میں بٹ گیا ہے۔ امیر وطاقتور اور غریب وکمزور۔دونوں طبقات میں جس کی جتنی بساط ہے وہ اس حیثیت میں ملکی قوانین  کا مذاق اڑاتا ہے۔  اگر میں ٹریفک سگنل توڑ نے پر بچ نکلنے کی اہلیت رکھتا ہوں تو میں ٹریفک سگنل کی خلاف ورزی ضرور کروں گا۔ اگر میں ٹیکس چوری کی سزا سے بچنے کے تمام راستے جانتا ہوں تو میں ٹیکس ضرور چوری کروں گا۔ اگر میں کسی مظلوم نوجوان کے قتل میں ماخوذ ہوں  اور مجھے یہ یقین ہو کہ میرا طاقتور خاندان مظلوم و مقتول  خاندان کے لواحقین کا جینا دوبھر کرنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے تو میں عدالت سے سزا ملنے کے باوجود انگلیوں سے فتح کا نشان ضرور بناؤ ں گا۔ کیونکہ میں جانتا ہوں کہ میرا خاندان   مقتول کے ورثاء کو نسلی دشمنی  اور مزید لاشوں سے ڈرا نے دھمکا  نے کے بعد  خون بہا اور دیت کے قانون پر عمل کرنے پر مجبور کردے گا۔ اگر اس ملک میں کچھ بھی نہیں ہو تا مگر قانون کی حاکمیت اور بالادستی ہو  تی تو کیا کوئی بھی شخص ایسے گھناؤنے جرائم    کا ارتکاب  کرنے کے بارے میں سوچ بھی سکتا تھا؟   شائد نہیں! کہ جس معاشرے  میں امیر   اور غریب  قانون کی نظروں میں برابر ہوں وہاں کا غریب بھی عزتِ نفس کی دولت سے مالا مال ہوتا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے بہت عرصے پہلے ہمیں سمجھا دیا تھا  کہ "تم سے پہلے کی امتیں اس لیے برباد ہوگئیں کہ وہ اپنے طاقتور اور امیر افراد کے جرائم کو نظر انداز کردیتی تھیں اور اپنے کمزور و غریب افراد کو سزا دیتے تھے"(مفہوم)   ۔ 

واہگہ بارڈر کے واقعہ کے بعد میرے ایک عزیز دوست نے وہاں جا کر شہیدوں کے لیے دعا اور خراجِ عقیدت پیش کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تو میں نے اس کے خیال سےمکمل اتفاق کیا ۔ مگر میں اسے یہ نہیں بتا سکا کہ میں چاہنے کے باوجود سیالکوٹ کے دو مظلوم  بھائیوں کے والدین سے رابطے کی ہمت پیدا نہیں کر پایا جنہیں کوٹ رادھا کشن جیسے ہی مشتعل درندوں کے ہجوم نے  2010 کے رمضان میں شہید کر دیا تھا۔ کئی برس گزرنے کے باوجود سیالکوٹ کے ان دو بھائیوں پر تشدد کی وڈیو کو ایک نظر سے زیادہ نہیں دیکھ پایا ۔  جب بھی میں اپنے خاندان اور دوست احباب کے مرحومین کے لیے دعا  ئے مغفرت کرتا  ہوں تو منیب اور مغیث کا نام خود بہ خود میری زبان پر آجاتا ہے۔ ہم بھلے ساری زندگی معصوم ، مظلوم اور مجبور لوگوں کے لیے دعا کریں ، یہ بات طے ہے کہ قانون پر سختی سے عمل درآمد ہونے تک ایسے مظلومین کی تعداد بڑھتی ہی رہے گی۔

Monday 27 October 2014

تخلیق کار کا دکھ

میری ایک بہت ہی پسندیدہ فلم ہے "راک اسٹار" جس میں رنبیر کپور اور نرگس فخری نے اداکاری کے جوہر دکھائے ہیں ۔ لیکن اس فلم میں ایک چھوٹا سا کردار ہے جو پہلے کالج کی کینٹین  کا مینیجر پھر راک اسٹار کا بزنس مینیجر بنتا ہے۔ اس کردار کا نام ہے "کھٹانا بھائی"۔ کھٹانا بھائی کا فلم میں ایک بہت ہی اہم فقرہ ہے ،جس میں وہ تمام موسیقاروں، گلوکاروں، اداکاروں، لکھاریوں، اور شاعروں کے بارے میں کہتے ہیں کہ ان سب کی زندگی  اٹھا کر دیکھو تو ایک چیز مشترک ملے گی"دکھ، درد، تکلیف، آنسو"۔ بقول کھٹانا بھائی کہ "جب تک تکلیف نہ ہو نا لائف  میں ، تب تک کوئی بڑا آدمی نہیں بنتا"۔ میری نظر میں یہ ایک جملہ ایک تخلیق کار کی زندگی کے بارے میں کہے جانے والے تمام بڑے فلسفوں کو مات کر دینے والا جملہ ہے۔



میں کوئی بہت بڑا اور عظیم لکھاری نہیں ہوں، لیکن میں نے لفظوں سے جتنا کچھ بھی تخلیق کیا ہے وہ سوز و گداز اور دردو الم کی ایسی وادیوں سے گزرنے کے بعد کیا ہے جس کو بیان کرنا کم از کم میرے لیے ممکن نہیں ہے۔ یہ درد، دکھ، الم، سوز و گداز کسی دنیاوی دکھ، محبت ، بے وفائی، کسمپرسی، یا کسی بھی ایسی حالت کی وجہ سے نہیں ہے جو عموماَ  برصغیر پاک و ہند کے شعرا سے وابستہ کی جاتی ہیں ۔ بلکہ یہ وہ دکھ ہے جو تخلیق کو عالم ِ خیال سے اس عالم وجود میں لانے کی کوششوں میں ایک تخلیق کار کے جسم وروح پر گزرتا ہے۔ گو کہ ایسا بھی نہیں ہے کہ ہر بار تخلیقی کاوشوں کے دوران آپ کو ایسی تکلیف دہ صورتحال سے گزرنا پڑے ۔ مگر میرا ذاتی مشاہدہ یہ ہے کہ خوشی اور مستی کے لمحات میں کچھ تخلیق کرنا ایسے ہی مشکل ہے جیسے پیٹ بھرے ہونے کی حالت میں کسی لذیز کھانے کا مکمل لطف اُٹھانے کی کوشش کرنا۔

کئی دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی خیال کی لفظوں میں ادائیگی عین آپ کے تصوارت کے مطابق نہیں ہو رہی ہو تو آپ ایک ایسی بے بسی، دکھ، اور اذیت سے گزرتے ہیں کہ دنیا میں شائد ہی کوئی دوسرا انسان آپ کے اس وقت  کے کرب کو محسوس کر سکے۔ یہ صرف لفاظی نہیں ہے۔ کئی دفعہ آنسو آپ کی مدد کو آتے ہیں اور آپ کو اس بے بسی، دکھ اور اذیت کی کیفیت سے نکال کر پرسکون کر دیتے ہیں۔ کبھی یہی آنسو آپ کو اتنا رلاتے ہیں کہ آپ کا سانس سینے میں اٹکنے لگتا ہے۔مگر ان تکالیف سے گزرنے کے بعد جب آپ کچھ تخلیق کر لیتے ہیں تو وہ لمحات آپ کو ایسی سرخوشی، سرمستی، اور سرور کی دنیا میں لے جاتے ہیں جو باقی تمام عالم میں ناپید ہے۔ تخلیق کا حسن  ہی شائد یہی ہے کہ انسان کسی عشقِ مجازی یا عشقِ حقیقی جیسی کیفیات سے گزرنے والے انسان کی طرح محبت، شفقت، درد، بے بسی، اذیت اور ایذا کے ایک خارزار صحرا سے گزرے اور پھر الفاظ، سُروساز، پتھروں اور رنگوں سے کچھ ایسا شاہکار تخلیق کرے کہ لوگ آہ اور واہ کرنے پر مجبور ہو جائیں۔ 

Sunday 26 October 2014

قوالی

مجھے موسیقی کی کچھ زیادہ سوجھ بوجھ تو نہیں ہے، بلکہ سچی بات یہ ہے کہ کسی بھی قسم کی کوئی معلومات نہیں ہیں۔ کسی بھی قسم کے گیت کی صنف ہو بس اگر اس کی دھن کانوں کو بھلی لگتی ہو تو وہ میں سنتا ہوں اور پسند کرتا ہوں۔ اب اس میں موسیقی کی زبان یا صنف کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ انگریزی موسیقی بھی ہوسکتی ہے، کوئی لوک گیت بھی ہو سکتا ہے یا کوئی غزل یا کوئی پکا راگ بھی ہو سکتا ہے۔ موسیقی دل میں سوز یا اثر پیدا کرنے کا پورا اختیار رکھتی ہے۔

قوالی کی صنف بھی ایک ایسی ہی صنف ہے جو جوبرصغیر پاک  وہند کے صوفیاء کرام نے اپنی محفلوں میں متعارف کروائی۔ سماء کی محفلیں سوزِ  قلب کو پانے کا ایک موثر ذریعہ سمجھی جاتی تھیں۔ یوں تو یہ ایک نہایت ہی مناسب موقع ہے کہ میں یہاں قوالی کی تاریخ بیان کروں اور امیر خسروؒ کے ذکر ِ مبارک سے ہوتا ہوا  برصغیر پاک وہند کے نامور گھرانوں کا تذکرہ کروں ، مگر سستی آڑے آتی ہے اور میں اس پرمشقت کام سے جان چھڑاتے  ہوئے صرف ایک وعدے پر اس لایعنی مضمون کا اختتام کرتا ہوں کہ میں قوالی پر ایک مفصل مضمون لکھنے کی کوشش کروں گا۔  اب آپ چچا غالب کا یہ شعر پڑھیں اور انتظار کریں کہ کب یہ وعدہ وفا ہوتا ہے:
تیرے وعدے پر جیے تو جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نا جاتے گر اعتبار ہوتا۔

Monday 20 October 2014

پبلشروں کےنخرے

جیسا کہ پچھلی پوسٹ میں ذکر ہوا تھا کہ سفرنامے کی تکمیل کے بعد اس کی اشاعت کے لیے کوشش کی جائے گی اور اس سلسلے میں پاکستان کے تین بڑے اشاعتی اداروں سے رابطے کی مہم کا آغاز کیا جائے گا۔دو ہفتوں کی کوششوں کے بعد مجھے ایک حوصلہ شکن  صورتحال کا سامنا ہے ۔ ان دو ہفتوں کے دوران میں نے انٹرنیٹ، کتابوں اور معلوماتی کتا بچوں سے پاکستان کے تین بڑے اشاعتی اداروں کا  ٹیلیفون نمبر نکالا اور ان سے رابطے کی کوششیں کیں۔  یہ تین ادارے سنگِ میل پبلیکیشنز ،   جہانگیر بک ڈپو پبلشرز،  اور  دوست پبلیکیشنز  تھے۔

سب سے پہلے سنگِ میل سے رابطہ کیا ، کیونکہ مستنصر حسین تارڑ صاحب کی تقریباَ ساری کتابیں اسی ادارے نے چھاپیں اور تقسیم کی ہیں ۔ کیونکہ میں مستنصرحسین تارڑ کا بہت بڑا مداح ہوں اس لیے میں چاہتا تھا کہ میرا سفر نامہ بھی سنگِ میل سے چھپے۔ مگر یہ خواہش رکھتے ہوئے میں بھول گیا کہ میں ایک نوآموز لکھاری ہوں جس کو ادب کی دنیا میں کوئی بھی نہیں جانتا۔ سنگ ِ میل کے ارشد صاحب نے نہایت سکون سے میرا  تعارف سنا اور برداشت کیا لیکن نہایت ہی شائستہ لہجے میں بتایا کہ ادارہ ابھی صرف اپنی پہلے سے شائع کی ہوئی کتابوں کو ہی چھاپنے کا ارادہ رکھتا ہے اور نئی تصانیف کی چھپائی کا کام نہیں کیا جا رہا۔ میں نے ان سے کتاب کا مسودہ ایک بار پڑھنے کی درخواست کی ، مگر انہوں نے معذرت کر لی۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ اگر میں کوئی مشہور و معروف مصنف ہوتا تو مجھے کسی بھی قسم کی تفصیل میں جائے بغیر کتاب کا مسودہ بھیجنے کی ہدایت ملتی۔ اس بات میں تو خیر کوئی مضائقہ نہیں کہ وہ کسی بھی نوآموز ادیب کی کتاب کو چھاپنے یا نا چھاپنے کا فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ کوئی بھی اشاعتی ادارہ کسی بھی نوآموز لکھاری کی تصنیف کو رد کرنے کا اختیار رکھتا ہے، مگر اس کے ساتھ ہی ساتھ انہیں مسودے پر ایک نظر ڈالنے کی کوشش ضرور کرنی چاہیئے۔

سنگِ میل سے مایوس کن ابتداء ہونے کے بعد میں نے دوسرا رابطہ جہانگیر بک ڈپو پریس سے کیا۔ وہاں میرا رابطہ  ان کے ڈائریکٹر جناب فواز نیاز صاحب سے ہوا جنہوں نے مجھے نہایت پرسکون لہجے میں کہا کہ ادارہ نئے ادیبوں کی کتاب  چھاپنے کا خود تو کوئی خطرہ مول نہیں لیتا، مگرنوآموز لکھاریوں  کے خرچے پر ان کی کتاب ضرور چھاپ دیتا ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے  مجھے منافع کی شرح بھی  بتائی  کہ اگر فرض کیا جائے کہ ستر ہزار کی لاگت سے کتابیں  چھپوائیں جائیں اور وہ ساری بک جائیں تو ادیب کو منافع کی مد میں تقریباَ دس ہزار کی رقم حاصل ہوسکتی ہے۔ اتنا بتانے کے بعد انہوں نے مجھے کہا کہ میں مزید بات فون پر نہیں کر سکتا ، آپ مجھے ای-میل میں تمام تفصیلات لکھ بھیجیں۔ میں انہیں ای–میل  میں بتایا کہ اس خاکسار کے پاس تو ستر ہزار نہیں ہیں، ہاں مسودہ ضرور ہے۔ وہ دن اور آج کا دن انہوں نے میری مسودے کے ساتھ بھیجی ہوئی ای-میل کا اخلاقی جواب (ہاں یا ناں)دینے کی زحمت بھی نہیں کی۔

تیسری کوشش  دوست پبلیکشنز  کے سلسلے میں تھی۔ انہوں نے تہیہ کیا ہوا تھا کہ کہیں سے کی گئی کسی کال کا  کوئی جواب نہیں دینا۔ دو نمبر تھے، مسلسل بجتے تھے اور بغیر کسی جواب یا انتبا ہ کے بند ہوجاتے تھے۔کئی دنوں کی کوشش کے بعد ان کا ایک تیسرا نمبر ان کی چھاپی ہوئی کتابوں میں ملا، جہاں سے کسی صاحب نے جواب دیا۔ ان کا جواب تھا کہ ہم آج کل کوئی کتاب نہیں چھاپ رہے، اب واللہ واعلم اگر ایک اشاعتی ادارہ کتابیں نہیں چھاپ رہا توپتا نہیں اور کیا چھاپ رہا ہے۔ ہو سکتا ہے حکومتِ پاکستان نے انہیں دارالحکومت میں ہونے کے سبب نوٹ چھاپنے کا ٹھیکہ دے دیا ہو۔

خیر قصہ مختصر کہ تینوں بڑے اداروں سے ناکامی کا مزا چکھنے کے بعد ہم کچھ دن تو گردن ڈال کر بیٹھے رہے، مگر پھر نئے عزم اور ولولے کے ساتھ کچھ مزید پبلشروں کے نام پتے اور رابطہ نمبر دریافت کرنے کی مہم شروع کی ہے۔ اس سلسلے میں کچھ مزید نئی دریافتیں سامنے آنے کی امید ہے۔
ابتداء عشق ہے روتا ہے کیا
آگے اگے دیکھئے ہوتا ہے کیا

Thursday 2 October 2014

سفر نامہ کی تکمیل

کل رات  چار بجے میری زندگی کا اہم وقت تھا ، کیونکہ اس لمحے میں نے اپنی ادبی زندگی کی پہلی کتاب مکمل کی ہے۔ یہ کتاب دراصل ایک سفر کی روداد ہے جو شائد کسی پبلشر کی نظرِ کرم کی بدولت چھپ بھی جائے۔ مگر میرے لیے جو بات سب   سے اہم اور خوشی کا باعث ہے وہ اس کتاب کی تکمیل ہے۔

نوکری کے ساتھ ساتھ زندگی بہت مصروف تھی، لیکن اتنی بھی نہیں کہ میں اس کتاب کو مکمل نا کرسکتا۔ لیکن میری سستی اور کاہلی نے اس کتاب کو اگست 2014 تک صرف دو ابواب تک ہی محدود رکھا۔ لیکن ستمبر شروع ہوتے ہی مجھے احساسِ زیاں  نے اتنا شرمندہ کر دیا  کہ میں نے اسی مہینے میں اس سفرنامے کو مکمل کرنے کی ٹھانی اور اس کے لیے باقاعدہ دنوں اور لکھے جانے والے لفظوں کی تقسیم طے کر دی۔

ستمبر کے پہلے ہفتے  کے دوران میں نے تقریباَ ایک ہزار لفظ روزانہ کی بنیاد پر لکھناشروع کیا  اور دوسرے ہفتے تک یہ گنتی تین ہزار لفظ روزانہ تک پہنچ گئی۔ اس رفتار سے کتاب اپنی تکمیل کی طرف بڑھتی جا رہی تھی۔ مگر آثار سے یہ لگتا تھا کہ کتاب شائد ستمبر کے بعد بھی چلتی رہے گی۔ یہ ایک تکلیف دہ صورتحال تھی کیونکہ میں نے خود اپنے لیے اس تاریخ         کا تعین کیا تھا۔ مجھے یہ احساس بھی ہوا کہ اگر میں کتاب کو ستمبر میں کی جانے والی محنت اور توجہ سے لکھتا تو شائد پچھلے سال دسمبر میں ہی یہ کتاب مکمل ہو جاتی۔ لیکن خیر دیر آید درست آید کے مصداق میں نے شکر ادا کیا کہ کتاب  کے مکمل ہونے کی کوئی صورت تو نظر آرہی ہے۔

ستمبر کے آخری ہفتے میں لفظوں کی تعداد چھے ہزار لفظ روزانہ تک جا پہنچی اور اس کے باوجود یہ دوڑ لگی ہوئی تھی کہ پہلے ستمبر ختم ہوتا ہے یا میری کتاب۔ آخری تین دنوں میں تو یہ حال تھا کہ میں نے دفتر سے گھر آنے کے بعد تمام وہ چیزیں اور عوامل جو میری توجہ میں رکاوٹ کا سبب بنتے تھے، ان کو  بند کر دیتا تھا اور پوری یکسوئی سے لکھنے کی کوشش کرتا تھا۔  میں نے کتاب شروع کرنے سے پہلے اسے چھ عنوانوں (یا باب) کے تحت تقسیم کر دیا تھا۔ ان چھ ابواب کو مزید ذیلی عنوانوں کے ذریعے تقسیم کر دیا تھا جس سے مجھے اس کتاب کو مکمل کرنے  میں نہایت آسانی ہوئی۔ اس تقسیم سے مجھے یہ اندازہ ہوا کہ کون سا عنوان کس تفصیل اور کتنی طوالت کا متقاضی ہے اور میں کیسے اسے بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔

بدقسمتی سےستمبر کے آخری دن میں چند  آخری  ذیلی عنوان پورے نہیں کر سکا، جنہیں میں نے اگلے دن یعنی پہلی اکتوبر کی رات کو مکمل کیا۔ اس احساس کو لفظوں میں بیان کرنا ایک مشکل امر ہے کہ پہلی کتاب کی تکمیل پر میں نے کیا محسوس کیا، لیکن میں اپنے احساسات و جذبات پر قابو نہیں رکھ سکا اور میری آنکھیں خوشی اورشکر کے آنسوؤں سے بھیگ گئیں۔ میں نے دو رکعت نفل نماز بطور شکرانہ اللہ کے حضور ادا کیے ۔ اللہ کا بے حد شکر ہے کہ اس نے مجھے توفیق دی کہ میں اپنی تمام تر سستی اور کاہلی سے لڑکر اس کتاب کو مکمل کروں۔

کتاب کی تکمیل کے بعد ایک اور مشکل مرحلہ درپیش ہے جس میں کسی پبلشر کو راضی کرنا ہے کہ وہ اس کتاب کو اچھے طریقے سے چھاپے اور تقسیم کرے۔ مجھے اس بارے میں ابھی زیادہ معلومات نہیں ہیں ۔ پاکستان میں اردو کتابیں چھاپنے والے تین بڑے اشاعتی اداروں سے رابطہ کرنے کی کوششوں کا آغاز انشاءاللہ کل سے ہو گا۔ مجھے امید ہے کہ یہ ادارے ایک نوآموز لکھاری کی تصنیف کو چھاپنے اور تقسیم کرنے پر غور کریں گے۔

Tuesday 5 August 2014

ایک کتاب لکھنے کی روداد

اگرچہ میں پچھلے چھ (6) سالوں سے ایک عدد ناول لکھنے کی کوشش کر رہا ہوں جس کا فی الحال کوئی ایک سرا بھی میری گرفت میں نہیں ہے، مگر یہ ایک ٹیس کی مانند میرے ذہن کی غلام گردشوں میں گھومتا رہتا ہے۔ مگر یہ روداد اس ناول کے بارے میں نہیں ہے ۔ یہ ذکر ہے اس سفر نامے کا جو پچھلے سال ستمبر میں شروع کیا گیا تھا۔ اس سفر نامے میں کئی شہروں کی کہانیاں شامل ہیں۔ مگر اصل منزل نانگا پربت کے دامن میں واقع چھوٹی سی وادی تھی  جو فیئری میڈوز کے نام سے مشہور ہے۔

یہ سفر نامہ جب شروع کیا گیا تو میرے ذہن میں پہلی دفعہ ایک واضح ڈیڈلائن تھی ، کیونکہ میں جانتا تھا کہ ایک کہانی کی نسبت اس کتا ب کے تمام سرے میرے سامنے واضح اور صاف ہیں۔ کہانی کی تشکیل کے دوران جنم لینے والی کوئی بھی مشکل اس سفرنامے میں بہ ظاہر موجود نہیں تھی۔ کردار کی تشکیل، کہانی میں کوئی ابہام، مصنف کی ذہنی رو، اور پلاٹ میں کسی نئے موڑ کی دریافت جیسی تمام مشکلات کا اس کتاب سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں تھا۔ میرا خیال تھا کہ میں تین مہینوں میں ہزار لفظ روزانہ کی بنیاد پر اس سفرنامے کو مکمل کر سکتا ہوں۔ مگر یہ بھی ایک خام خیال تھا، کیونکہ میں نے جب لکھنا شروع کیا تو کئی زاویے جو میری نظروں سے اوجھل تھے ایک دم ابھر کر سامنے آگئے۔

کسی مقام کا ذکر رومانوی لکھاریوں کی طرح کرنا ہے یا ایک حقیقت پسند کی نظروں نے جو دیکھا اسے بیان کرنا ہے؟  تاریخ، جغرافیہ، اور معاشرت کا ذکر کتنا ، کہاں اور کیسے ہو؟ جملوں کا استعمال کیسا ہو؟ گفتگو کی صورت بیان کیا جائے تو کہیں پوری کتاب لفاظی کا شکار ہو کر پھکڑپن کا ایک نادر نمونہ نا بن جائے  اور زیادہ تاریخی بیانات اور واقعات اس سفر نامے کو ایک بوجھل تاریخ کی کتاب نا بنا دیں۔

یہ وہ کچھ خیالات ہیں جو اس کتاب کو لکھتے ہوئے میرے ذہن میں آتے ہیں۔ پانچ ابواب پر مشتمل اس کتاب کے تین باب تقریباََ  مکمل  ہوچکے ہیں اور چوتھے باب کی جانب رواں دواں ہوتے ہوئے اکثر میں جب پہلے تین ابواب پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے یہ تینوں ابواب الگ رنگوں میں لکھے نظر آتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ بہ ظاہر یہ ہے کہ مجھے ان تین ابواب کو لکھتے ہوئے گیارہ مہینوں کا عرصہ گزر گیا ہے اور جو تین مہینوں کا تخمینہ میں نے اس کتاب کی تکمیل کے لیے لگایا تھا وہ میری سستی و کاہلی کی وجہ سے اتنے لمبے عرصے پر محیط ہو گیا ہے۔ یہ کسی بھی طرح ایک اطمینان بخش صورتِ حال نہیں ہے۔

یہ کتاب کب مکمل ہوگی یہ تو شائد خدا کو ہی معلوم ہے، مگر اس کتاب کو لکھنے کے دوران مجھ پر یہ حقیقت کھلی ہے کہ فرضی کہانیوں کی تشکیل اور کسی حقیقی روداد کو تحریر کرنا دو مختلف باتیں ہیں۔ اسی لیے دونوں سے نبر د آزما ہونے کے لیے ایک لکھاری کو مختلف رویہ اور طریقہ اختیار کرنا نہایت ضروری ہے۔ یہ روداد چونکہ ابھی جاری وساری ہے اور مستقبلِ قریب میں اس کے ختم ہونے کی بہ ظاہر کوئی صورت نظر نہیں آتی، اسی لیے میں کوشش کروں گا کہ اس دوران پیش آنے والی صورتحال کو یہاں بیان کرسکوں تاکہ دوسرے لکھاریوں کا کچھ بھلا ہوسکے۔آپ کی رائے اس ضمن میں نہایت کارآمدہوسکتی ہے اس لیے اپنی رائے کے لیے نیچے کمنٹ ضرور کریں۔

Sunday 20 July 2014

رمضان المبارک

تقریباََ دو مہینوں کے وقفے کے بعد دوبارہ کچھ لکھنے بیٹھا ہوں تو رمضان کا اکیسواں روزہ ہے اور ہر سال کی طرح اس سال بھی رمضان نہایت تیز رفتاری سے گزررہا ہے اور کچھ ہی دنوں میں مکمل ہو جائے گا۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی رمضان بہت ساری رحمتیں اور برکتیں اپنے دامن میں سمیٹ کر لایا ۔ ہمت والوں نے خوب محنت اور لگن سے اس مہینے میں اپنے حصے کی رحمتیں اور برکتیں سمیٹیں۔ دوسری جانب ہمیں اسلامی معاشروں میں موجود بےحسی کا شدید مظاہرہ دیکھنے کو ملا۔

اس مہینے کے آغاز سے ہی مظلوم فلسطینی عوام پر اسرائیل کی جارحانہ اور بے رحمانہ حملوں معصوم ومظلوم عورتوں اور بچوں کی شہادت کے کئی واقعات ہوئے اور اب تک کی اطلاعات کے مطابق تقریباَ چار سو (400) افراد اسرائیل کی اس جارحیت کا شکار بن چکے ہیں۔ مسلم ممالک، خاص طور سے عرب ممالک کی بے حسی بھی قابلِ دید ہے۔ ایک جانب سعودی عرب، مصر، کویت، اور اردن کی جانب سے کوئی ردِعمل دیکھنے میں نہیں آیا تو دوسری جانب پاکستان، ایران اور ترکی جیسے مضبوط دفاعی قوت رکھنے والے ممالک کے حکمرانوں کی جانب سے کوئی شدید احتجاجی ردعمل دکھائی و سنائی نہیں دیا۔

پاکستان کے عوام حسبِ معمول رمضان شروع ہوتے ہی عید کی تیاریوں میں مگن ہو گئے۔ کہیں افطار پروگرام بن رہے ہیں تو کہیں سحری کی دعوت کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ حسبِ معمول میڈیا سے چلنے والے مختلف پروگراموں میں ہر ایک پروگرام ،اس عظیم مہینے کو بیچنے کی ہر ممکن کوشش کر رہا ہے۔ کہیں آم کھلائے جا رہے ہیں، کہیں غریبوں کے گھروں میں گھس کر ان کی بے بسی و بے کسی کو بیچا جا رہا ہے  اور کہیں غریبوں کی مدد کرنے کے نام پر ان کی عزتِ نفس کو ٹھیس پہنچائی جا رہی ہے۔جو ذکر ہونا چاہیئے وہ سرے سے مفقود ہے، اکا دکا خبریں اسرائیل کی جارحیت اور فلسطینی مسلمانوں کے عزم و ہمت  کی چلے تو چلے ورنہ ایک طوفانِ بدتمیزی ہے جو سحر سے افطار تک اسلام کے اس مقدس مہینے کے نام پر چل رہا ہے۔

یہ سب لکھنے کا مقصد دل کی بھڑاس نکالنے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں کیونکہ میں خود بھی اسی رویے کا شکار ہوں۔ صبح آفس ، افطار گھر میں اور پھر فیس بک اور ٹوئیٹر پر رات ہو جاتی ہے۔ معمول کی نمازیں اور تلاوت کو ہی رمضان کا اصل مقصد سمجھ بیٹھا ہوں۔ کوئی کوشش کردار، عمل، اور بے مقصد زندگی کو ٹھیک کرنے کے لیے نہیں کر سکا اور پورے بیس روزے گزر گئے۔

میری دعا ہے کہ ہم سب مسلمان اپنے رویے، عادت، اور نیت میں بھی مسلمان ہو جائیں اور تمام مسلمان ممالک ایک دوسرے سے مختلف ہونے کے باوجود ایک جسد کی طرح ہو سکیں۔ ایک کی تکلیف دوسرے کی تکلیف اور ایک کی راحت دوسرے کی راحت بن سکے۔ ہماری ضرورتیں اور وسائل مجتمع کی جائیں تو ہم باآسانی اپنی معاشی و سماجی مشکلات پر قابو پاسکتے ہیں۔پیچھے رہ جائیں گی دنیاوی علوم اورایک مہذب معاشرے کی تشکیل تو وہ اس کے لیے ہمیں اپنے اپنے ممالک اور ان کے رہن سہن ، عادات ومزاج کے مطابق کوششیں کرنی ہوں گی۔ یہ کوشش نظریاتی ہونے کے ساتھ ساتھ عملی ہونے کی بھی اشد ضرورت ہے ۔اس کی شروعات  ہم اپنی نئی نسل کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کر کے کر سکتے ہیں۔


Sunday 18 May 2014

ضمیر اور قومی احساس

جیو اور اے آر وائی کی جنگ میں  ہمارا ضمیر اور قومی احساس تباہ ہور ہا ہے۔ لیکن کسی کو بھی کوئی پروا نہیں ہے۔ دونوں طرف سے الزامات کی بوچھاڑ ہے اور دونوں طرف علماء کرام اپنا وزن ڈال کر پلڑا بھاری کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ نہایت احترام کے ساتھ عرض ہے کہ یہ صرف چندعلماء کرام کا وطیرہ نہیں ہے۔ پوری قوم من جملہ میڈیا اداروں کے، اسی رویے پر عمل پیرا ہے۔ ڈان، ایکسپریس، جنگ، نوائے وقت، دنیا، اور دی نیوز کونسا ادارہ ایسا ہے جو اپنے مخالفین کی بھد اڑانے کے لیے بھاڑے کے ٹٹوؤں کو اپنے ادارے میں شامل نہیں کرتا۔ ہر ادارے کے اپنے پسندیدہ نظریات وافکار ہیں اور وہ دن رات اس کے پرچار میں اور اپنے مخالفین کا تیا پانچہ کرنے پر تلے رہتے ہیں۔ یہ پہلی دفعہ ہوا کہ اپنا ہی ہتھیار خود اپنے خلاف استعمال ہوگیا ہے تو چیخیں نکل رہی ہیں۔ ایک طرف سے آزادیِ اظہار رائے پر ضرب لگانے کے دعوے کیے جارہے ہیں تو دوسری جانب سے پیشہ ورانہ ذمہ داری میں غفلت برتنے کا الزام کا ورد کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ بہتی گنگا میں سب نے ہاتھ دھوئے ہیں۔ نا جیو اتنا سیدھا ہے نا اے آر وائی، ونوں کو اپنے مفادات عزیز ہیں جن میں سب سے اول درجہ پیسے کا ہے۔ رمضان کی آمد آمد ہے، دونوں ادارے اسلام اور رمضان کے نام پر اپنے صارفین کو عامر لیاقت اور شائستہ واحدی جیسے "مبلغین اسلام" کے ذریعے اسلامی تعلیمات سے روشناس کروائیں گے۔ بکےگا تو صرف ضمیر، موت ہو گی توفرض شناسی کی، اور بے وقوف بنے گی تو یہ بیس کروڑ عوام جو سحروافطار کے دوران انہی لوگوں کے ارشادات عقیدت مندی سے دیکھ رہے ہوں گے۔ جو بکتا ہے بیچ دو، جو نہیں بکتا اسے پھینک دو۔ جہاں سے ملتا ہے لے لو۔ کہاں، کیوں اور کیسے کے سوالات چھوڑ دو۔

Monday 12 May 2014

لا یعنی پوسٹ

یہ ایک لایعنی پوسٹ ہے۔ اگر آپ اس میں سے کوئی معنی یا مطلب نکالتے ہوئے پائے گئے تو اس فعل کو آپ کی نادانی سمجھا جائے گا ۔ ایسی پوسٹ عموماَ بھرتی کی ہوتی ہیں جن سے بلاگ کا پیٹ بھرا جاتا ہے اور تاریخوں کا ہیر پھیر کیا جاتا ہے۔ ویسے تو آج (یا کل)کی تاریخ میں بہت کچھ ہوا ہے ، جیسے کے لاہوراور اسلام آباد میں انتخابی دھاندلی کے خلاف  احتجاجی جلسے، ایک سنسنی خیز آئی پی ایل کا میچ اور ہم دوستوں کی ایک ٹیپ بال کرکٹ سیریز، لیکن یہ اتوار کو وقوع پذیر ہوا ہے  اور جب میں یہ لایعنی و بے معنی پوسٹ لکھ رہا ہوں تو پیر کی صبح ہونے میں کچھ ہی گھنٹے باقی ہیں۔ کیونکہ اب مجھے ایک بے انتہا چبھتے ہوئے سوال پوچھتی   "پیر" کا سامنا کرنا ہے اس لیے میں اس لایعنی و بے معنی پوسٹ کا خاتمہ کرتا ہو ں اور امید کرتا ہوں کہ آپ کو میری طرح "پیر" چبھتی ہوئی محسوس نہیں ہوتی ہو گی۔
 

Sunday 4 May 2014

سلطان شہید

غینم چاروں اَور سے اس کی جانب بڑھا آ رہا تھا اور وہ بغیر کسی خوف کے ان کی جانب رخ کیے کھڑا تھا۔ اس کے مصاحبین میں سے ایک نے کہا کہ "سلطانِ مکرم جرات ودلیری دکھانے کا موقع یکسر ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ خود کو دشمن کے سپاہیوں پر ظاہر کر دیں تاکہ وہ آپ کی عزت و تکریم کریں اور آپ کونقصان نہ پہنچائیں۔ " آٖفرین ہے مگر اس شیر دلاور پر جس نے ایسے کڑے وقت میں بھی اپنے اوسان خطا نہ ہونے دیے اور کڑک کر اپنے مصاحب کو ڈانٹا اور وہ جملہ کہا جو اس کے بعد تاریخ میں امر ہوگیا  ۔ اس کے بعد جب کبھی انسانوں پر ایسا کڑا وقت آیا کہ اپنی جان یا عزت و وقار میں سے کسی ایک کا انتخاب کا معاملہ بن پڑا تو اسی ایک جملے کا سہارا لیا اور خود کو مصائب و الم جھیلنے کے لیے تیار کیا۔

"سعد آپ کیا کر رہے ہیں؟ کتاب کھول کر دیکھ رہے ہیں وہ بھی ایسے دھڑلے سے؟" میری استانی حیرت سے میری جانب دیکھتی ہوئی بولیں۔ یہ میری چوتھی جماعت  کا منظر ہے جو آج بھی میری اولین یادوں میں سے ایک ہے۔ جماعت میں ایک چھوٹا سا ٹیسٹ تھا اور ہمیں اردو کی کتاب کے ایک سبق کے بارے میں چند سوالوں کے جواب لکھ کردینے تھے۔ جیسے کہ اس وقت دستور تھا کہ بچے سوالات رٹ لیا کرتے تھے اور امتحانات میں من و عن اسے لکھ ڈالتے تھے۔ جو استاد نے لکھوا یا تھا ، اگر جواب ویسا ہی ہے یا پھر اس کے قریب بھی ہے تو جواب ٹھیک مانا جاتا تھا۔ آپ سے کسی قسم کی تحقیقی ، تخلیقی ، یا تجسس پر مبنی جوابات کی توقع نہیں کی جاتی تھی۔ اب میری بدقسمتی کے میرا ذہن رٹنے کے معاملے میں ایک دم کودن تھا، جبکہ میرا تخیل اتنا وسیع و عریض کہ بیٹھے بیٹھے کسی سبق میں بتائے گئے منظر کو اپنے سامنے مجسم دیکھ لیا۔ ایسے ہی چوتھی جماعت میں اردو کی کلاس میں ایک دفعہ دو اسباق کے بارے میں ٹیسٹ ہوا جس میں سے ایک باب کے سوالات میں سرے سے ہی بھول گیا اور جب لکھنے کی باری آئی تو میرا ذہن دھلی ہوئی ہوئی تختی کی مانند کورا تھا۔ اب جوابات لکھنا بھی ضروری تھے اور اس بات کا مجھے کیا پوری کلاس کو علم تھا کہ مس ثمینہ کو کہانیاں سخت ناپسند ہیں۔ بھلے وہ نزلے زکام اور سر درد کی ہوں یا ہوم ورک گھربھول آنے کی کہانی ہو۔ تو ایسی مس سے یہ توقع رکھنا کہ وہ اپنے لکھوائے ہوئے جوابات کی جگہ ایک کہانی دیکھ کر ایک چوتھی جماعت کے بچے کو معاف کر دیں گی تو یہ سرا سر آپ کی بھول ہے۔ تو میں نے کوشش کی کہ میز کے نیچے بنے ہوئے خانے میں رکھی ہوئی کتاب میں ایک جھانکی مار لوں اور جواب کچھ ملتا جلتا بنا لوں تو شائد میری بچت ہو جائے۔ تو جناب کتا ب کھولی، سبق ڈھونڈا اور پڑھنا شروع کر دیا۔ اب جو پڑھا تو سوالات اور ٹیسٹ تو بھول گیا سبق میں کھو گیا۔ مس نے پکڑ لیا اور اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا وہ حصہ ہے جسے میں دہرانا زیادہ پسند نہیں کرتا، حالانکہ اگر یہ قصہ دہرا یا جائے تو آج کل کی جدید تربیت یافتہ استانیوں کے لیے باعث حیرت ہو گا کہ کیسے ہتھیلیوں ، گال اور شرم کے مسلسل ملاپ سے سرخ  رنگ کے مختلف شیڈز بنتے ہیں۔

سلطان فتح علی ٹیپوسے یہ میری پہلی واقفیت تھی۔ اس کےبعد بھی میں جہاں کہیں اس کے بارے میں کوئی کتاب، مضمون، مقالہ ، یا قصہ کہیں دیکھ لیتا تو جب تک اسے پڑھ نہیں لیتا تو جیسے چین نہیں ملتا تھا۔ سلطان ٹیپو  ایسی شخصیت تھے کہ ان کے ساتھیوں نے تو ان کی ذات و صفات کے گن گائے ہی ہیں، ان کے دشمنو ں نے بھی انہیں ہدیہ تبریک پیش کیا ہے۔ لارڈ ولزلی جس نےسلطان کے ساتھ آخری مقابلے میں انگریزوں، مرہٹہ اور نظام دکن کی مشترکہ فوجوں کی کمان کی تھی ، سلطان کی بہادری اور جانبازی دیکھ کر اسے شاہی اعزاز و اکرام کے ساتھ دفن کیا۔  سلطان کی زندگی اور موت پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے لیکن ان کی زندگی کا سب سے تاریخی ماخذ سید میر حسن علی کرمانی کی فارسی میں لکھی ہوئی کتاب "نشانِ حیدری" ہے جو سلطان ٹیپو کی شہادت کے ٹھیک آٹھ سال بعد لکھی گئی۔  اس کتاب کا اردو ترجمہ جو میں نے پڑھا اس میں سلطان حیدر علی کے حالات واقعات بھی درج ہیں۔  یہ ایک نہایت بہترین اور تاریخی لحاظ سے درست ماخذ ہے جس سے دوسرے مورخین نے بھی فائدہ اٹھایا ہے۔

سلطان ٹیپو کے بارے میں جو واقعات مجھے پسند ہیں میں وہ لکھتا ہوں  جو میں نے تاریخی لحاظ سے درست پائے ہیں۔ میں نے  غیر مصدقہ اور حقیقت سے بعید روایتیں لکھنے سے گریز کیا ہے جیسے مثال کے طور سے ایک روایت جس کے مطابق انگریز سپاہی تین دن تک خوف کی وجہ سے سلطان ٹیپو کی لاش کے قریب نہیں آسکے۔

سلطان حیدر علی کی نرینہ اولاد نہیں ہوئی تھی جس کے باعث وہ کافی پریشان رہا کرتا تھا۔ ارکاٹ میں ٹیپو مستان ولی کے نام سے ایک بزرگ بہت مشہور تھے جن کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ مستجاب الدعاتھے ۔ سلطان حیدر علی نے ان کے مزار پر حاضری دی اور منت مانی کہ اگر ان کو اولادِ نرینہ نصیب ہوئی تو ہ اس کا نام ٹیپو رکھیں گے۔ اللہ کی قدرت کے اُسی سال (دس نومبر 1750ء) میں سلطان کو اللہ نے اولادِ نرینہ سے نوازا اور سلطان نے اپنی منت پوری کرتے ہوئے اپنے بچے کا نام فتح علی ٹیپو رکھا ۔


سلطان حید ر علی کو اپنے صوبہ داری کے دور میں ایک محلاتی سازش کا شکار ہونا پڑا جس کی وجہ سے ان کےاہل ِ خانہ کو ایک گھر میں قید کر دیا گیا جبکہ حیدر علی ایک مہم  پر کسی دوسرے علاقے میں گئے ہوئے تھے۔ ٹیپو کی عمر اس وقت تقریباََ سات سال تھی اور وہ اپنے گھر کے صحن سے دوسرے بچوں کو کھیلتا دیکھتے تھے۔ ٹیپو سلطان نے خود بعد میں بیان کیا کہ میں ایک دن ایسے ہی کھڑا تھا کہ ایک بوڑھا شخص وہاں سے گزرا اور جب انہیں وہاں کھڑا دیکھا تو کہا " اے بچے تو عنقریب اس ملک کا بادشاہ بنے گا، جب تو بادشاہ بن جائے تو اس جگہ ایک مسجد تعمیر کروا دینا"۔ سلطان نے وعدہ کر لیا۔ جب ٹیپو سلطان اپنے والد کی وفات کے بعد تخت پر بیٹھے تو انہیں اپنا وعدہ یاد تھا اور انہوں نے اپنے وعدے کے مطابق اس جگہ ایک شاندار مسجد تعمیر کروائی جس کا نام "مسجدِ اعلیٰ" ہے۔  

ایک دفعہ سلطان ٹیپو کے دربار میں ایک بزرگ آئے جن سے سلطان نے انگریزوں کے خلاف فتح حاصل کرنے کی درخواست کی، انہوں نے دربار میں بچھے ایک قالین کی طرف اشارہ کیا جس میں ایک شیر جھپٹتا ہو ادکھایا گیا تھا ۔ اس شیر کی پشت پر جھاڑیا ں تھیں جس میں ایک شخص چھپا بیٹھا تھا اور وہ شیر پر شُست باندھ رہا تھا۔ میدانِ جنگ میں یہ پیشن گوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی کہ سلطان دوبدو کسی مقابلے میں نہیں ہارا جب تک اس کی پشت پر موجود اس کے دربار کے لوگوں (میر صادق اور میر قمر الدین خان) نے اس سے غدار ی نہیں کی۔

انگریزوں  نے سنہ1792 ء میں سلطان  کے محل کے غداروں کی بہ دولت سرنگا پٹن کا محاصرہ کر لیا ، اسے میسور کی تیسری جنگ بھی کہا جاتا ہے۔  ٖغفار خان اور غازی الدین خان جیسے سرفروشوں کی وجہ سے مکمل شکست سے تو بچ گئے، مگر صلح کی شرائط کے طور پر سلطان کو اپنی سلطنت کا بہت بڑا حصہ چھوڑنا پڑا اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے دوبیٹوں کو زرِ ضمانت کے طور پر انگریزوں کی تحویل میں دینا پڑا۔ جب یہ شرط پیش کی گئی تو انگریزوں کی طرف سے شاہی خاندان کے کوئی بھی دو فرد کی شرط پیش کی گئی تھی اور سلطان اپنے بھتیجوں، بھانجوں اور دوسرے رشتہ داروں کو بہ حکم ِ حاکم بھیج سکتا تھا لیکن  اس کی غیرت نے گوارا نہیں کیا  کہ کسی اور کی اولاد کو اس آزمائش کی گھڑی میں آگے کردے اور اپنی اولاد کو بچا لے، اسی لیے سلطان ٹیپو کے دو بیٹے معز الدین سلطان اور عبدالخالق سلطان کو بہ حیثیت کفیل انگریزوں کے سپرد کر دیا۔

دھوندو جی واگیہ ایک ڈاکو تھا لیکن بلا کا چست و چالاک اور دلیر انسان تھا۔ سلطان ٹیپو کے پاس مسلسل اس کی لوٹ مار ، بہادری اور غریبوں مسکینوں کی مدد کے واقعات پہنچ رہے تھے۔ آخر کار جب وہ گرفتار ہو کر پیش کیا گیا تو سلطا ن ٹیپو نے اسے معاف کر کے فوج کا عہدہ  پیش کیا ۔ دھوندو جی واگیہ جو اپنے قتل کے احکامات سننے کا منتظر تھا  ایسا لطفِ کریمانہ دیکھ کر بے اختیار کلمہ پڑھ بیٹھا اور سلطان ٹیپو نے اسے  ملک جہاں خان کا خطاب دیا۔ یہ وہ واحد شخص تھا جو سلطان ٹیپو کی شہادت کے بعد بھی انگریزوں سے برسر پیکار رہا ، جلال الدین خوارزم جو چنگیز خان کی فوجو ں کے آگے اپنی سلطنت ہارنے کے بعد بھی سینہ سپر ہو گیا تھا،  کی طرح ملک جہاں خان بھی انگریزوں سے چھاپہ مار لڑائی لڑتا رہا  ۔اس کے انجام کے بارے میں تاریخ خاموش ہے لیکن اس کی وفاداری اور دلیری کے قصے تاریخ کا حصہ بن گئے۔

مئی 1799 : دشمنوں کا سیل بے پناہ قلعہ سرنگا پٹن کی دیواروں سے ٹکرا رہا تھا۔ ایسے نازک موقع پر سلطان نے کسی اور جگہ منتقل ہو نے کااردہ نہیں کیا اور آخری وقت تک جان لڑانے کا فیصلہ کر لیا۔ قمر الدین خان اور میر صادق کی غداری کی وجہ دشمن روز بروز قلعے پر چڑھا آتا تھا اور سلطانی لشکر کو مون سون کی اس بارش کا انتظار تھا جو دریائے کاویری کو بھر دیتی اور دشمن کی اس بے پناہ قوت اور غداروں کی اس سازش کو بھی ناکام بنا دیتی، لیکن شائد قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔  4  مئی 1799 ء کو منجموں کا ایک گروہ سلطان کے حضور پیش ہوا اور کہا کہ" آج کا دن آپ کے لیے روزِ بد ہے اور آج دوپہر کی ساتویں گھڑی آپ پر بھاری رہے گی اور قلعہ کے اطراف بھی نحوست گرد اڑاتی رہے گی ۔ بہتر ہے کہ حضرت شام تک لشکر کے جلو میں رہیں اور راہِ خدا میں صدقہ دیں"۔ اگرچہ سلطان کو یہ رائے گوارا نہیں تھی، لیکن پھر بھی صدقہ کا سامان تیار کرنے کا حکم دے دی۔ صدقہ و خیرات کرنے کے بعد سلطان ٹیپو دستر خوان پر بیٹھا اور ایک لقمہ تناول کیا ، ابھی دوسرا لقمہ اٹھایا ہی تھا کہ شہر کی طرف سے آہ وفغاں کا شور اٹھا۔ اس شور کے سنتے ہی سلطان ٹیپو نے دوسرا لقمہ ہاتھ سے رکھ دیا اور پوچھا کہ یہ شور کیسا ہے؟ مصاحبین نے بازپرس کے بعد عرض کی "سید غفار(جو سرنگا پٹن کا قلعہ دار اورنہایت جری اور وفادار سپہ سالار تھا)  دشمن کی توپ کا گولہ لگنے سے حضور پر قربان ہو گیا ہے اور دشمن قلعہ پر بلا مزاحمت چڑھا آرہا ہے"۔

سلطان ٹیپو نے ہاتھ دھو لیے اور کہا "بس ہم بھی چلے" یہ کہا اور باہر آکر ایک گھوڑی پر سوار ہوئے اور چند  جانثاروں کے ساتھ ندی کی جانب والے دریچہ میں سے ہوتا ہوا قلعہ سے باہر نکلا اور مغربی مورچے کی جانب سے دشمنوں پر حملہ کرنے کےلیے گھوڑی کو ایڑلگائی۔ ایسے نازک موقع پر جب دشمن فصیل توڑ کر اندر داخل ہوا چاہتا تھا میر صادق نے سپاہیوں کو تنخواہ دینے کے بہانے فصیل سے ہٹا لیا اور دشمن خالی فصیل پا کر اندر تک دَر آیا۔ جب تک سلطان محاذ تک پہنچا تو دشمن قلعے کے اندرپہنچ چکا تھا۔ غینم چاروں جانب سے اس کی جانب بڑھا آ رہا تھا اور وہ بغیر کسی خوف کے ان کی جانب رخ کیے کھڑا تھا۔ اس کے مصاحبین میں سے ایک نے کہا کہ "سلطانِ مکرم جرات ودلیری دکھانے کا موقع یکسر ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ خود کو دشمن کے سپاہیوں پر ظاہر کر دیں تاکہ وہ آپ کی عزت و تکریم کریں اور آپ کونقصان نہ پہنچائیں۔ " آٖفرین ہے مگر اس شیر دلاور پر جس نے ایسے کڑے وقت میں بھی اپنے اوسان خطا نہ ہونے دیے اور کڑک کر اپنے مصاحب کو ڈانٹا اور کہا "شیر کی ایک دن کی زندگی، گیڈر کی ہزار سالہ زندگی سے بہتر ہے"۔  یہ کہہ کر دشمن کے ایک گروہ پر شیر کی طرح جھپٹ پڑے۔ جگہ نہایت تنگ تھی، پھر بھی انہوں نے بندوق اور تلوار سے دو تین سپاہیوں کو موت کے گھاٹ اتارا اور پھر ایک سپاہی کی بندوق سے نکلی گولی اس عظیم بادشاہ کا چہرہ زخمی کر گئی۔ سلطان ٹیپو زخم کھا کر گرا   تو کسی انگریز سپاہی نے اس کو مردہ جان کر اس کے قیمتی کمر بند پر ہاتھ ڈالا اور کھینچنے لگا، سلطان ٹیپو نے جسم کی آخری تمام قوت مجتمع کر کے اپنی تلوار سے ایک کاری وارکیا اور اس سپاہی کا ہاتھ کٹ کر جسم سے الگ ہو گیا۔ ایک دوسرے انگریز سپاہی نے سلطان کے چہرے کے بالکل سامنے رکھ کر بندوق داغی اور یہ شیروں کی طرح جینے والا سلطان نے جامِ شہادت نوش کیا۔ انا للہ وانا علیہ راجعون۔

رات سر پر آپڑی  مگر انگریز سپہ سالار مطمئن نہیں تھا کیونکہ سلطان کی نعش کا ابھی تک کوئی پتہ نہیں تھا۔ آخر کار کسی نے اس جگہ کی نشاندہی کی جہاں سلطان شہید ہوئے تھے اور انگریزوں کو کئی لاشوں کے نیچے دبی ہوئی اس بطلِ جلیل کا جسم مل گیا۔ شاہی خاندان کے افراد اور دوسرے لوگوں سلطان ٹیپو کے وجود کی شناخت کے بعد انگریزوں نے اگلے دن پورے فوجی اعزاز کے ساتھ تدفین کی اجازت دی اور سلطان ٹیپو کو سرنگا پٹن کے قلعے میں اس کے والدکے پہلو میں دفن کر دیاگیا۔ سلطان کی وفات   کے وقت ایسا زوروں   کا طوفان آیا کہ ایک انگریز فوجی اپنے روزنامچے میں لکھتا ہے کہ "میں نے اپنی زندگی میں کئی سمندری طوفان اور بارشیں دیکھیں ہیں، لیکن میں نے کبھی ایسی شدت کا طوفان اپنی زندگی میں نہیں دیکھا"۔یہ وہی مون سون کی بارش تھی جس کا سلطان ٹیپو کے وفادار سپاہیوں کو انتظار تھا۔

مشتاق احمد یوسفی اپنی کتاب "آبِ گم"(صٖفحہ 309) میں لکھتے ہیں" انہیں یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوا  کہ حلوائی اور بچے اس کتے کو ٹیپو! ٹیپو! کہہ کر بلا اور دھتکار رہے تھے۔ سرنگا پٹم کی خون آشام جنگ میں ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد انگریزوں نے کثرت سے کتوں کا نام ٹیپورکھنا شروع کر دیا تھا۔ اور ایک زمانے میں یہ نام شمالی ہندوستان میں اتنا عام ہوا کہ خود ہندوستانی بھی آوارہ و بے نام کتوں کو ٹیپو کہہ کر ہی بلاتے اور ہشکارتے تھے۔ یہ جانے بغیر کہ خود کتوں کا یہ نام کیسے پڑا۔ باستثنائے نپولین اور ٹیپو سلطان، انگریزوں نے ایسا سلوک اپنے کسی اور دشمن کے ساتھ روا نہیں رکھا۔ اس لیے کہ کسی اور دشمن کی ان کے دل میں ایسی ہیبت اور دہشت کبھی نہیں بیٹھی تھی۔ برِصغیر کے کتے سو سال تک سلطان شہید کے نام سے پکارے جاتے رہے۔ کچھ برگزیدہ شہید ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی آزمائش، عقوبتِ مطہرہ، اور شہادتِ عظمیٰ ان کی موت  کے ساتھ ختم نہیں ہوتی۔ رب جلیل انہیں شہادتِ جاریہ کی سعادت سے سرفراز فرماتا ہے۔ " 

Saturday 26 April 2014

About Urdu


اردوہے جس کا نام، ہمیں جانتے ہیں داؔغ
سارے جہاں میں دُھوم ہماری زباں کی ہے

Urdu is the national language of Pakistan and it is also a prominent language (either spoken or understood) within South Asian region. Many people in countries like India, Bangladesh, Afghanistan, and Sri Lanka at least understand it and may speak some broken Urdu as well. This pretty much makes it a prominent language in a region where more than one seventh population of the world lives.

Of course there are a lot of languages spoken within the region, but I personally think that most people can speak and understand Urdu or broken Urdu one way or another. It is my personal opinion and experience which I have found during my travelling within Pakistan. However, I feel to experience this a little more in India, Iran, Afghanistan and Bangladesh. My brother who has visited Sri Lanka and Bangladesh and he told me that Sri Lankan and Bangladeshi people can understand Urdu, however they termed it as “Hindi” which is not true as the term “Hindi” refers to a language spoken in India with its origin in “Sanskrit” and has a totally different lexigraph.

The word “Urdu” is derived from Turkish language which literally means “Lashkari” (a soldier who lives in a camp). According to a myth, after capturing Delhi in 1526, Mughal emperors gradually built an army consisting of Arab, Persian, Afghan, Turk and Hindustani soldiers. All these soldiers used to live in a camp outside Delhi. In that “camp” they used to communicate with each other. They shared words from each other’s languages to get the message across, this turned out to be the origin of a new language which comprises the words from every language spoken in the camp. It was supposed to be the first form of “Urdu” language. So, Urdu was a language used by soldiers from different nations to communicate with each other. However, modern day researchers do not agree with this approach. It is a very difficult task to know the exact origin of Urdu language, as there are a lot of theories about this subject. I will try to cover some of those theories in another post.

Urdu has 32 alphabets and most of these alphabets are also present in Persian and Arabic.  Below is an image which shows all of the Urdu alphabets.

Urdu Alphabets (Image Source: Arabic Calligraphy)

I hope you have enjoyed this post and will share it within your social circle. Please keep me posted through comments, feedback & suggestions for further improvement.

Tuesday 15 April 2014

سوچنے اور لکھنے کا عمل

لکھیں تو کیا لکھیں اور کیوں لکھیں؟ ایسا کیا ہے اس لکھنے میں اس کام کو پایہ تکمیل پہنچانے میں جان ایسی اذیت میں ڈالی جاتی ہے۔ سوچنے کی اذیت۔ کیونکہ سوچنے کی اذیت سے زیادہ تکلیف دہ عمل اور کوئی نہیں ہے۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جو شعور حاصل کرنے کے بعد سے مسلسل چلتا رہتا ہے اور اگربندہ حساس بھی ہو تو یہ سوچنے کا عمل بعض دفعہ بہت تکلیف دہ ہو جاتا ہے۔اس لیے سوچنے کے اس عمل کو فی الحال ترک کرتے ہیں اور جو کچھ ذہن میں آتا جا رہا ہے اسے لکھنے کی کوشش کریں۔
کیوں تو اچھا لگتا ہے وقت ملا تو سوچیں گے
تجھ میں کیا کیا دکھتا ہے وقت ملا تو سوچیں گے
سارا شہر شناسائی کا دعوے دار تو ہے لیکن
کون ہمارا اپنا ہے وقت ملا تو سوچیں گے
ہم نے اس کو لکھا تھا کچھ ملنے کی تدبیر کرو
اس نے لکھ کر بھیجا ہے وقت ملا تو سوچیں گے
موسم ، خوشبو، بادِ صبا، چاند شفق اور تاروں میں
کون تمہارے جیسا ہے وقت ملا تو سوچیں گے
یا تم اپنے دل کی مانو، یا پھر دنیا والوں کی
مشورہ اس کا اچھا ہے وقت ملا تو سوچیں گے

Monday 14 April 2014

7 things you may find common in Baby Bhutto and a typical Bollywood movie


It has been quite some time since Bilawal Bhutto Zardari, our "Billo" trying to rejuvenate Pakistan People's Party (PPP) with (wannabe) fiery and bold tweets. He also attends public gathering and held a huge "cultural" festival to preserve the culture of Sindh, which turned out be nothing but a political stunt to launch himself. There are few occasional speeches in public gathering and some political events from time to time; however his favorite battlefield is still Twitter.

At times, I find his tweets rather amusing and it gives me a sense of observing a typical Bollywood movie which involves a lot of false emotions, fake action stunt and a lack of common sense. He should realize that he is about to become the chairman of an old party. I think he is surrounded with too much uncle and aunties at this time and once he get rids of these advisers and learn to swim alone like her mother, he may become a good politician. We still have to wait and see. So, in the meanwhile enjoy these 7 traits of our billo and do let me know whether these observations are valid or not.

1. Typical and traditional (female) “Siyapa” style on current affairs either on Twitter or in public speeches. Just like heroines who has been molested by village's chief.

2. Emulating a lion Zulfiqar Ali Bhutto (ZAB) when everybody knows that you are a dog’s son Asif Ali Zardari (AAZ). Just like Indian movie hero who yells a lot but can't do a thing about wrong deeds happening in the movie.


3. Thinks you are important, but people only notice you when you get caught in the middle of a twitter fight. Just like the movies where hero moves around with a swagger, however he didn't realizes that he is looking stupid.

4. Create events (Sindh Festival) just like unnecessary and unwanted item songs.

5. A Hero (yet to see it come true in real life) surrounded by useless friends (advisers) who are not worthy of getting anywhere else in the movie (life) if not a hero’s friend (Faryal Talpur and Owais Tappi in this case).


6. Bitching about the current situation, wasted the last 5 years when you had the chance to change it. Just like a movie where Hero wastes time around the heroine while village chief plunders and burns his house to the ground.


7. Always waste energies in useless things, just like a hero in the movie who waste his energy in dance, romance, and fight while his family needs him to do some job. We have seen him visiting hospitals and relief camps during recent Thar drought. While he should have shown some vision by ordering preventive measures which would prevent these events in the future.


Note: It is just a piece of satire, and no offence intended.

Monday 17 March 2014

دعائے طائف

دعائے طائف

ترجمہ: اےمیرے اللہ !میں تجھ سے اپنی طاقت کی کمزوری، بے بسی اور لوگوں کے ہاں اپنی بے بسی کا شکوہ کرتا ہوں۔یا ارحم الرٰحمین، تو کمزوروں کا رب ہےاور تو میرا بھی رب ہے، تو مجھے کس کے حوالے کر رہا ہے؟ کسی ایسے بے گانے کے جو میرے ساتھ تلخی سے پیش آئے؟ یا کسی دشمن کے جسے تو نے میرے معاملے کا مالک بنا دیا ہے، الہٰی ! اگر مجھ پر تیرا غضب نہیں ہے ، تو مجھے کوئی پروا نہیں ، لیکن تیری عافیت میرے لیے زیادہ کشادہ ہے، میں تیرے چہرے کے اس نور کی پناہ چاہتا ہوں جس سے تاریکیاں روشن ہو گئیں اور جس پر دنیا و آخرت کے معاملات سلجھ گئے کہ تو مجھ پر اپنا غضب نازل کرے، یا تیرا عذاب مجھ پر وارد ہو، تیری ہی رضا مطلوب ہے، یہاں تک کہ تو خوش ہو جائےاور تیرے بغیر کوئی زور اور طاقت نہیں۔"
حضرت محمد مصطفیٰﷺ
یہ دعا ہمارے پیارے نبیﷺ نے طائف کے تبلیغی سفر کے دوران پیش آنے والی اذیت اور مشکلات اٹھانے کے بعد کی تھی۔اس دعا کے جواب میں اللہ تبارک تعالیٰ نے جبرائیل اور ایک اور فرشتے کو نبی پاکﷺ کی بارگاہ میں بھیجا کہ اگر آپﷺ حکم کریں تو طائف کی وادی کو دونوں پہاڑوں کے بیچ کچل دیا جائے۔ لیکن ہمارے نبی ﷺ چونکہ رحمت للعالمین ہیں اس لیے انہوں نے کہا "نہیں میں آپ کو ایسا حکم نہیں دوں گا، کیونکہ مجھے امید ہے کہ ان سے آنے والی نسل میں اللہ تعالیٰ ایسے لوگ بھی پیدا کرے گاجو صرف اللہ کی عبادت کریں گے۔"
دعا کا ترجمہ اور نبی پاک ﷺ کا فرشتوں کو جواب جناب محمد رفیق ڈوگر کی سیرت کی کتاب الامینﷺ سے اخذ کیا گیا ہے۔
تفصیلات کے لیے ملاحظہ کیجئے:
الامینﷺ
محمد رفیق ڈوگر
جلد 1 صغحہ439-440

Tuesday 4 March 2014

پاگل پن کا دور

پاگل پن کا دور ایک ایسا دور ہے جو افراد یا معاشرے پر وارد ہو جاتا ہے۔ اس دور میں فردِ واحد اور ان کا ہجوم ردعمل کا شکار ہو جاتے ہیں۔ کوئی بھی واقعہ، بات، یا عمل پر اندھا دھند بنا سوچے سمجھے ردعمل دکھانے کا شکارہو جاتے ہیں۔ دو افراد کی گاڑیاں ٹکرا جانے سے لے کر کسی قومی سانحے کے رونما ہونے پر افراد وہجوم کا رویہ ردعمل ہی ہوتا ہے۔ بجائے کسی سوچ کے زیرِ اثر اس واقعے یا سانحے کی وجوہات اور مستقبل میں ایسے کسی بھی واقعے کو رونما ہونے سے روکنے کے عمل کی بجائے فوری طور پر عبرت کا نمونہ بنانے پر زیادہ زور ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر حالیہ سے واقعے میں بہاولپور کے ایک غریب خاندان میں زیادتی کا شکار ہونے والی معصوم اور کمسن لڑکی نے جب تک خود سوزی نہیں کی، ہمارے حکمرانوں نے اس متاثرہ خاندان کو انصاف دلانے کےلیے کوئی کوشش نہیں کی۔ دوسری جانب سندھ کے ضلع لاڑکانہ میں قرآنِ پاک کی بے حرمتی کی افواہ (غیر تصدیق شدہ خبر) پر مشتعل افراد کے گروہ نے ایک مندرکو نذرِ آتش کر دیا۔ حسبِ توقع معاشرے کے ذمہ داران ( دانشور، صحافی، سیاست دان و حکمران) نے اخبارات، سوشل میڈیا پر مذمتی بیان جاری کر کے اپنا فرض پورا کر دیا۔ 

قصور شائد کسی کا بھی نہیں ہے اور شائد ہم سب کا ہے۔ ہم (عوام) جو عرصے سے خود پر حکومت کیے جانے کے عمل سے لاتعلق ہیں اس کا یہی نتیجہ نکلنا تھا۔ کوئی اگر دلچسپی لیتا بھی ہے تو اس کی دلچسپی اپنی مخصوص سوچ کی وجہ سے اپنی پسندیدہ سیاسی جماعت تک محدود رہتی ہے۔ اب وہ جماعت سیاہ کرے سفید کرے یا کچھ بھی نا کرے تب بھی اس فردِ واحد نے واہ واہ، سبحان اللہ، ماشاءاللہ، اور استغفراللہ کہنے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں کرنا۔ سیاسی جماعتوں کی تفریق کے بعد ہمارے پاس ہیں مذہبی اور سماجی درجہ بندی۔ مذہبی درجہ بندیوں میں تو فرقہ پرستی اور مسلک کی بنیاد پر ایسے دیرینہ جھگڑے ہیں کہ ان سے چھٹکارا بظاہر ناممکن نظر آتا ہے۔ دوسری جانب ہمارے پاس ایسی سماجی درجہ بندی ہے جس میں موجود دو-تین انتہائیں واضح طور سے نظرآتی ہیں۔ ایک طرف مقامی طور پر پڑھے لکھوں افراد کا ایسا ہجوم ہے جو اپنی خاندانی تربیت اور ملکی اداروں میں تعلیم پانے کے سبب ایک مخصوص سوچ کے حامل ہیں۔ ان کے نزدیک پاکستان کی مشکلات کاسبب سیاستدان، بیوروکریسی، فوج اور صحافی (بالترتیب) ہیں اور عوام مظلوم ترین طبقہ ہے۔ لیکن ایک بنیادی قومی تربیت کے فقدان کے سبب ہر اس جائز اور ناجائز طریقے کو ٹھیک سمجھتے ہیں جس میں ذاتی فائدہ سب سے زیادہ ہو۔  سگنل توڑنے، بجلی چوری کرنے،اور ناجائز تجاوزات سے لے کر ہر غلط کام کوٹھیک سمجھنا ان کی سوچ کا حصہ بن گیا ہے۔ ایک مزید غلط سوچ جس کا معاشرے کے اکثر افراد شکار ہیں وہ معاشی ترقی کی دوڑ میں اندھا دھند شامل ہونے کی وہ لگن ہے جس نے ہمیں بہ حیثیت انسان اور بہ حیثیت قوم ایک ایسے دوڑ میں شامل کر دیا ہے جس میں جیتنے کے لیے ہم کسی بھی کام کو کر گزرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ 

دوسری جانب مغربی اداروں سے تعلیم یافتہ افراد کو ایسا گروہ ہے جو مادر پدر آزاد معاشرہ چاہتا ہے، اس گروہ کے افراد آپ کو ٹوئیٹر اور انگریزی اخبارات میں لکھتے ہوئے کثرت سے نظر آئیں گے۔ پاکستان کی ہر مشکل کا سبب انہیں مذہب کے قریب ہونا دکھائی دیتا ہے۔ ان افراد میں بھی آپ کو ایسے افراد بکثرت مل جائیں گے جو آزادیِ اظہارِ رائے کے نام پر مذہب اور مسلمان معاشرے کی روایتوں کے خلاف زہر اگلتے ہوئے نظر آئیں گے اور ان کے نزدیک دوسرے کسی بھی شخص کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنی مرضی اور سمجھ کے مطابق اپنے معمولات پر عمل کرے۔ دین پر عمل کرنے والے ہر شخص کو بہ حقارت اور منہ تیڑھا کر کے "جاہل ملا" اور "ان پڑھ مولوی" کا خطاب دینا ان کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔

لبرل افراد کو مذہب کی جانب ایسا رویہ رکھنے کی ہمت ہمارے مذہب کی نمائندگی کرنے والے افراد نے دی ہے۔ جنہوں نے دینی تعلیم میں تحقیق و اجتہاد کا دروازہ ہی بند کر دیا ہے۔ ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگانے کی باعث انہوں نے ہر وہ دروازہ بند کر دیا ہے جس سے یک جہتی کا خیر نمودار ہو سکتا تھا۔ دوسری جانب دنیاوی علوم سے استعفادہ نا کرنے کی وجہ سے یہ افراد علمی و ذہنی سوالوں کا کوئی مدلل جواب دینے سے قاصر ہوتے ہیں اور لبرل افراد کی تضحیک و تشنیع کا شکار ہوتے ہیں۔

قصہ مختصر یہ ہے کہ ہم تمام افراد ایسے پاگل پن کا شکار ہیں جس میں ہر دوسرا شخص غلط اور ہم ٹھیک ہیں۔ اس کا علاج بظاہر تو نظر نہیں آتا کیونکہ جو کوئی اس رویے کو ٹھیک کرنے کی حیثیت میں ہے وہ خود اس مرض میں مبتلا ہے۔ 

Sunday 16 February 2014

پاکستانی حکومت

پاکستانی حکومت کا اس وقت وہی عالم ہے جو کراچی میں چلنے والی بسوں کا ہوتا ہے۔ جن کے پیچھے بڑی محبت اور حکمت سے لکھا ہوتا ہے "چلی جا رہی ہے خدا کے سہارے"۔ سمجھ نہیں آتی کہ امن و امان اور معیشت کی بحالی کے علاوہ وہ اور کونسے منظر نامے ہیں جو وزیرِ اعظم پاکستان اور ہمارے باقی لیڈران کو اتنا تھکا دیتے ہیں کہ وہ کبھی بیرونِ ملک اور کبھی اندرونِ ملک آرام کرنے کے بہانے ڈھونڈ لیتے ہیں۔ عمران خان کسی بھی طرح مذاکرات کو ہر صورت کامیاب (عارضی طور سے ہی سہی) دیکھنا چاہتے ہیں۔ تاکہ عوام الناس کے بڑے مجمع کے سامنے "ہم نے تو پہلے ہی کہا تھا" یا "مستند ہے میرا فرمایا ہوا" کا اظہار فرما سکیں۔ 
سندھ حکومت پچھلے 30 سالوں سے اسی حالت میں ہے جس میں اس بدقسمت صوبے کے وزیرِ اعلیٰ کی موجودہ عمر اور صحت ہے۔ دوسرے صوبوں کو تو پھر یہ ڈر ہے کہ اگر کوئی کام (اگر چہ میٹرو بس اور لیپ ٹاپ جیسے ہی کیوں نا ہوں) نہیں کیے تو الیکش نتائج پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔ لیکن سیاسی لاشوں اور مشکل حالات میں جیتےمظلوم سندھیوں کے طفیل کئی عشروں سے سندھ کی حکومت ان کے گھر کی باندی بنی ہوئی ہے۔ اور سندھ فیسٹیول اور ٹویٹر کے بیانات سے صاف ظاہر ہے کہ اس منظر نامے کے تبدیل ہونے کی کوئی صورت نہیں دکھتی کیونکہ حکمرانوں کی نئی نسل مظلوم اور بے چارے ہاریوں پر حکومت کرنے کے لیے تیار اور پُر عزم ہے۔