Monday 27 October 2014

تخلیق کار کا دکھ

میری ایک بہت ہی پسندیدہ فلم ہے "راک اسٹار" جس میں رنبیر کپور اور نرگس فخری نے اداکاری کے جوہر دکھائے ہیں ۔ لیکن اس فلم میں ایک چھوٹا سا کردار ہے جو پہلے کالج کی کینٹین  کا مینیجر پھر راک اسٹار کا بزنس مینیجر بنتا ہے۔ اس کردار کا نام ہے "کھٹانا بھائی"۔ کھٹانا بھائی کا فلم میں ایک بہت ہی اہم فقرہ ہے ،جس میں وہ تمام موسیقاروں، گلوکاروں، اداکاروں، لکھاریوں، اور شاعروں کے بارے میں کہتے ہیں کہ ان سب کی زندگی  اٹھا کر دیکھو تو ایک چیز مشترک ملے گی"دکھ، درد، تکلیف، آنسو"۔ بقول کھٹانا بھائی کہ "جب تک تکلیف نہ ہو نا لائف  میں ، تب تک کوئی بڑا آدمی نہیں بنتا"۔ میری نظر میں یہ ایک جملہ ایک تخلیق کار کی زندگی کے بارے میں کہے جانے والے تمام بڑے فلسفوں کو مات کر دینے والا جملہ ہے۔



میں کوئی بہت بڑا اور عظیم لکھاری نہیں ہوں، لیکن میں نے لفظوں سے جتنا کچھ بھی تخلیق کیا ہے وہ سوز و گداز اور دردو الم کی ایسی وادیوں سے گزرنے کے بعد کیا ہے جس کو بیان کرنا کم از کم میرے لیے ممکن نہیں ہے۔ یہ درد، دکھ، الم، سوز و گداز کسی دنیاوی دکھ، محبت ، بے وفائی، کسمپرسی، یا کسی بھی ایسی حالت کی وجہ سے نہیں ہے جو عموماَ  برصغیر پاک و ہند کے شعرا سے وابستہ کی جاتی ہیں ۔ بلکہ یہ وہ دکھ ہے جو تخلیق کو عالم ِ خیال سے اس عالم وجود میں لانے کی کوششوں میں ایک تخلیق کار کے جسم وروح پر گزرتا ہے۔ گو کہ ایسا بھی نہیں ہے کہ ہر بار تخلیقی کاوشوں کے دوران آپ کو ایسی تکلیف دہ صورتحال سے گزرنا پڑے ۔ مگر میرا ذاتی مشاہدہ یہ ہے کہ خوشی اور مستی کے لمحات میں کچھ تخلیق کرنا ایسے ہی مشکل ہے جیسے پیٹ بھرے ہونے کی حالت میں کسی لذیز کھانے کا مکمل لطف اُٹھانے کی کوشش کرنا۔

کئی دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی خیال کی لفظوں میں ادائیگی عین آپ کے تصوارت کے مطابق نہیں ہو رہی ہو تو آپ ایک ایسی بے بسی، دکھ، اور اذیت سے گزرتے ہیں کہ دنیا میں شائد ہی کوئی دوسرا انسان آپ کے اس وقت  کے کرب کو محسوس کر سکے۔ یہ صرف لفاظی نہیں ہے۔ کئی دفعہ آنسو آپ کی مدد کو آتے ہیں اور آپ کو اس بے بسی، دکھ اور اذیت کی کیفیت سے نکال کر پرسکون کر دیتے ہیں۔ کبھی یہی آنسو آپ کو اتنا رلاتے ہیں کہ آپ کا سانس سینے میں اٹکنے لگتا ہے۔مگر ان تکالیف سے گزرنے کے بعد جب آپ کچھ تخلیق کر لیتے ہیں تو وہ لمحات آپ کو ایسی سرخوشی، سرمستی، اور سرور کی دنیا میں لے جاتے ہیں جو باقی تمام عالم میں ناپید ہے۔ تخلیق کا حسن  ہی شائد یہی ہے کہ انسان کسی عشقِ مجازی یا عشقِ حقیقی جیسی کیفیات سے گزرنے والے انسان کی طرح محبت، شفقت، درد، بے بسی، اذیت اور ایذا کے ایک خارزار صحرا سے گزرے اور پھر الفاظ، سُروساز، پتھروں اور رنگوں سے کچھ ایسا شاہکار تخلیق کرے کہ لوگ آہ اور واہ کرنے پر مجبور ہو جائیں۔ 

Sunday 26 October 2014

قوالی

مجھے موسیقی کی کچھ زیادہ سوجھ بوجھ تو نہیں ہے، بلکہ سچی بات یہ ہے کہ کسی بھی قسم کی کوئی معلومات نہیں ہیں۔ کسی بھی قسم کے گیت کی صنف ہو بس اگر اس کی دھن کانوں کو بھلی لگتی ہو تو وہ میں سنتا ہوں اور پسند کرتا ہوں۔ اب اس میں موسیقی کی زبان یا صنف کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ انگریزی موسیقی بھی ہوسکتی ہے، کوئی لوک گیت بھی ہو سکتا ہے یا کوئی غزل یا کوئی پکا راگ بھی ہو سکتا ہے۔ موسیقی دل میں سوز یا اثر پیدا کرنے کا پورا اختیار رکھتی ہے۔

قوالی کی صنف بھی ایک ایسی ہی صنف ہے جو جوبرصغیر پاک  وہند کے صوفیاء کرام نے اپنی محفلوں میں متعارف کروائی۔ سماء کی محفلیں سوزِ  قلب کو پانے کا ایک موثر ذریعہ سمجھی جاتی تھیں۔ یوں تو یہ ایک نہایت ہی مناسب موقع ہے کہ میں یہاں قوالی کی تاریخ بیان کروں اور امیر خسروؒ کے ذکر ِ مبارک سے ہوتا ہوا  برصغیر پاک وہند کے نامور گھرانوں کا تذکرہ کروں ، مگر سستی آڑے آتی ہے اور میں اس پرمشقت کام سے جان چھڑاتے  ہوئے صرف ایک وعدے پر اس لایعنی مضمون کا اختتام کرتا ہوں کہ میں قوالی پر ایک مفصل مضمون لکھنے کی کوشش کروں گا۔  اب آپ چچا غالب کا یہ شعر پڑھیں اور انتظار کریں کہ کب یہ وعدہ وفا ہوتا ہے:
تیرے وعدے پر جیے تو جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نا جاتے گر اعتبار ہوتا۔

Monday 20 October 2014

پبلشروں کےنخرے

جیسا کہ پچھلی پوسٹ میں ذکر ہوا تھا کہ سفرنامے کی تکمیل کے بعد اس کی اشاعت کے لیے کوشش کی جائے گی اور اس سلسلے میں پاکستان کے تین بڑے اشاعتی اداروں سے رابطے کی مہم کا آغاز کیا جائے گا۔دو ہفتوں کی کوششوں کے بعد مجھے ایک حوصلہ شکن  صورتحال کا سامنا ہے ۔ ان دو ہفتوں کے دوران میں نے انٹرنیٹ، کتابوں اور معلوماتی کتا بچوں سے پاکستان کے تین بڑے اشاعتی اداروں کا  ٹیلیفون نمبر نکالا اور ان سے رابطے کی کوششیں کیں۔  یہ تین ادارے سنگِ میل پبلیکیشنز ،   جہانگیر بک ڈپو پبلشرز،  اور  دوست پبلیکیشنز  تھے۔

سب سے پہلے سنگِ میل سے رابطہ کیا ، کیونکہ مستنصر حسین تارڑ صاحب کی تقریباَ ساری کتابیں اسی ادارے نے چھاپیں اور تقسیم کی ہیں ۔ کیونکہ میں مستنصرحسین تارڑ کا بہت بڑا مداح ہوں اس لیے میں چاہتا تھا کہ میرا سفر نامہ بھی سنگِ میل سے چھپے۔ مگر یہ خواہش رکھتے ہوئے میں بھول گیا کہ میں ایک نوآموز لکھاری ہوں جس کو ادب کی دنیا میں کوئی بھی نہیں جانتا۔ سنگ ِ میل کے ارشد صاحب نے نہایت سکون سے میرا  تعارف سنا اور برداشت کیا لیکن نہایت ہی شائستہ لہجے میں بتایا کہ ادارہ ابھی صرف اپنی پہلے سے شائع کی ہوئی کتابوں کو ہی چھاپنے کا ارادہ رکھتا ہے اور نئی تصانیف کی چھپائی کا کام نہیں کیا جا رہا۔ میں نے ان سے کتاب کا مسودہ ایک بار پڑھنے کی درخواست کی ، مگر انہوں نے معذرت کر لی۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ اگر میں کوئی مشہور و معروف مصنف ہوتا تو مجھے کسی بھی قسم کی تفصیل میں جائے بغیر کتاب کا مسودہ بھیجنے کی ہدایت ملتی۔ اس بات میں تو خیر کوئی مضائقہ نہیں کہ وہ کسی بھی نوآموز ادیب کی کتاب کو چھاپنے یا نا چھاپنے کا فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ کوئی بھی اشاعتی ادارہ کسی بھی نوآموز لکھاری کی تصنیف کو رد کرنے کا اختیار رکھتا ہے، مگر اس کے ساتھ ہی ساتھ انہیں مسودے پر ایک نظر ڈالنے کی کوشش ضرور کرنی چاہیئے۔

سنگِ میل سے مایوس کن ابتداء ہونے کے بعد میں نے دوسرا رابطہ جہانگیر بک ڈپو پریس سے کیا۔ وہاں میرا رابطہ  ان کے ڈائریکٹر جناب فواز نیاز صاحب سے ہوا جنہوں نے مجھے نہایت پرسکون لہجے میں کہا کہ ادارہ نئے ادیبوں کی کتاب  چھاپنے کا خود تو کوئی خطرہ مول نہیں لیتا، مگرنوآموز لکھاریوں  کے خرچے پر ان کی کتاب ضرور چھاپ دیتا ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے  مجھے منافع کی شرح بھی  بتائی  کہ اگر فرض کیا جائے کہ ستر ہزار کی لاگت سے کتابیں  چھپوائیں جائیں اور وہ ساری بک جائیں تو ادیب کو منافع کی مد میں تقریباَ دس ہزار کی رقم حاصل ہوسکتی ہے۔ اتنا بتانے کے بعد انہوں نے مجھے کہا کہ میں مزید بات فون پر نہیں کر سکتا ، آپ مجھے ای-میل میں تمام تفصیلات لکھ بھیجیں۔ میں انہیں ای–میل  میں بتایا کہ اس خاکسار کے پاس تو ستر ہزار نہیں ہیں، ہاں مسودہ ضرور ہے۔ وہ دن اور آج کا دن انہوں نے میری مسودے کے ساتھ بھیجی ہوئی ای-میل کا اخلاقی جواب (ہاں یا ناں)دینے کی زحمت بھی نہیں کی۔

تیسری کوشش  دوست پبلیکشنز  کے سلسلے میں تھی۔ انہوں نے تہیہ کیا ہوا تھا کہ کہیں سے کی گئی کسی کال کا  کوئی جواب نہیں دینا۔ دو نمبر تھے، مسلسل بجتے تھے اور بغیر کسی جواب یا انتبا ہ کے بند ہوجاتے تھے۔کئی دنوں کی کوشش کے بعد ان کا ایک تیسرا نمبر ان کی چھاپی ہوئی کتابوں میں ملا، جہاں سے کسی صاحب نے جواب دیا۔ ان کا جواب تھا کہ ہم آج کل کوئی کتاب نہیں چھاپ رہے، اب واللہ واعلم اگر ایک اشاعتی ادارہ کتابیں نہیں چھاپ رہا توپتا نہیں اور کیا چھاپ رہا ہے۔ ہو سکتا ہے حکومتِ پاکستان نے انہیں دارالحکومت میں ہونے کے سبب نوٹ چھاپنے کا ٹھیکہ دے دیا ہو۔

خیر قصہ مختصر کہ تینوں بڑے اداروں سے ناکامی کا مزا چکھنے کے بعد ہم کچھ دن تو گردن ڈال کر بیٹھے رہے، مگر پھر نئے عزم اور ولولے کے ساتھ کچھ مزید پبلشروں کے نام پتے اور رابطہ نمبر دریافت کرنے کی مہم شروع کی ہے۔ اس سلسلے میں کچھ مزید نئی دریافتیں سامنے آنے کی امید ہے۔
ابتداء عشق ہے روتا ہے کیا
آگے اگے دیکھئے ہوتا ہے کیا

Thursday 2 October 2014

سفر نامہ کی تکمیل

کل رات  چار بجے میری زندگی کا اہم وقت تھا ، کیونکہ اس لمحے میں نے اپنی ادبی زندگی کی پہلی کتاب مکمل کی ہے۔ یہ کتاب دراصل ایک سفر کی روداد ہے جو شائد کسی پبلشر کی نظرِ کرم کی بدولت چھپ بھی جائے۔ مگر میرے لیے جو بات سب   سے اہم اور خوشی کا باعث ہے وہ اس کتاب کی تکمیل ہے۔

نوکری کے ساتھ ساتھ زندگی بہت مصروف تھی، لیکن اتنی بھی نہیں کہ میں اس کتاب کو مکمل نا کرسکتا۔ لیکن میری سستی اور کاہلی نے اس کتاب کو اگست 2014 تک صرف دو ابواب تک ہی محدود رکھا۔ لیکن ستمبر شروع ہوتے ہی مجھے احساسِ زیاں  نے اتنا شرمندہ کر دیا  کہ میں نے اسی مہینے میں اس سفرنامے کو مکمل کرنے کی ٹھانی اور اس کے لیے باقاعدہ دنوں اور لکھے جانے والے لفظوں کی تقسیم طے کر دی۔

ستمبر کے پہلے ہفتے  کے دوران میں نے تقریباَ ایک ہزار لفظ روزانہ کی بنیاد پر لکھناشروع کیا  اور دوسرے ہفتے تک یہ گنتی تین ہزار لفظ روزانہ تک پہنچ گئی۔ اس رفتار سے کتاب اپنی تکمیل کی طرف بڑھتی جا رہی تھی۔ مگر آثار سے یہ لگتا تھا کہ کتاب شائد ستمبر کے بعد بھی چلتی رہے گی۔ یہ ایک تکلیف دہ صورتحال تھی کیونکہ میں نے خود اپنے لیے اس تاریخ         کا تعین کیا تھا۔ مجھے یہ احساس بھی ہوا کہ اگر میں کتاب کو ستمبر میں کی جانے والی محنت اور توجہ سے لکھتا تو شائد پچھلے سال دسمبر میں ہی یہ کتاب مکمل ہو جاتی۔ لیکن خیر دیر آید درست آید کے مصداق میں نے شکر ادا کیا کہ کتاب  کے مکمل ہونے کی کوئی صورت تو نظر آرہی ہے۔

ستمبر کے آخری ہفتے میں لفظوں کی تعداد چھے ہزار لفظ روزانہ تک جا پہنچی اور اس کے باوجود یہ دوڑ لگی ہوئی تھی کہ پہلے ستمبر ختم ہوتا ہے یا میری کتاب۔ آخری تین دنوں میں تو یہ حال تھا کہ میں نے دفتر سے گھر آنے کے بعد تمام وہ چیزیں اور عوامل جو میری توجہ میں رکاوٹ کا سبب بنتے تھے، ان کو  بند کر دیتا تھا اور پوری یکسوئی سے لکھنے کی کوشش کرتا تھا۔  میں نے کتاب شروع کرنے سے پہلے اسے چھ عنوانوں (یا باب) کے تحت تقسیم کر دیا تھا۔ ان چھ ابواب کو مزید ذیلی عنوانوں کے ذریعے تقسیم کر دیا تھا جس سے مجھے اس کتاب کو مکمل کرنے  میں نہایت آسانی ہوئی۔ اس تقسیم سے مجھے یہ اندازہ ہوا کہ کون سا عنوان کس تفصیل اور کتنی طوالت کا متقاضی ہے اور میں کیسے اسے بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔

بدقسمتی سےستمبر کے آخری دن میں چند  آخری  ذیلی عنوان پورے نہیں کر سکا، جنہیں میں نے اگلے دن یعنی پہلی اکتوبر کی رات کو مکمل کیا۔ اس احساس کو لفظوں میں بیان کرنا ایک مشکل امر ہے کہ پہلی کتاب کی تکمیل پر میں نے کیا محسوس کیا، لیکن میں اپنے احساسات و جذبات پر قابو نہیں رکھ سکا اور میری آنکھیں خوشی اورشکر کے آنسوؤں سے بھیگ گئیں۔ میں نے دو رکعت نفل نماز بطور شکرانہ اللہ کے حضور ادا کیے ۔ اللہ کا بے حد شکر ہے کہ اس نے مجھے توفیق دی کہ میں اپنی تمام تر سستی اور کاہلی سے لڑکر اس کتاب کو مکمل کروں۔

کتاب کی تکمیل کے بعد ایک اور مشکل مرحلہ درپیش ہے جس میں کسی پبلشر کو راضی کرنا ہے کہ وہ اس کتاب کو اچھے طریقے سے چھاپے اور تقسیم کرے۔ مجھے اس بارے میں ابھی زیادہ معلومات نہیں ہیں ۔ پاکستان میں اردو کتابیں چھاپنے والے تین بڑے اشاعتی اداروں سے رابطہ کرنے کی کوششوں کا آغاز انشاءاللہ کل سے ہو گا۔ مجھے امید ہے کہ یہ ادارے ایک نوآموز لکھاری کی تصنیف کو چھاپنے اور تقسیم کرنے پر غور کریں گے۔