Sunday 18 May 2014

ضمیر اور قومی احساس

جیو اور اے آر وائی کی جنگ میں  ہمارا ضمیر اور قومی احساس تباہ ہور ہا ہے۔ لیکن کسی کو بھی کوئی پروا نہیں ہے۔ دونوں طرف سے الزامات کی بوچھاڑ ہے اور دونوں طرف علماء کرام اپنا وزن ڈال کر پلڑا بھاری کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ نہایت احترام کے ساتھ عرض ہے کہ یہ صرف چندعلماء کرام کا وطیرہ نہیں ہے۔ پوری قوم من جملہ میڈیا اداروں کے، اسی رویے پر عمل پیرا ہے۔ ڈان، ایکسپریس، جنگ، نوائے وقت، دنیا، اور دی نیوز کونسا ادارہ ایسا ہے جو اپنے مخالفین کی بھد اڑانے کے لیے بھاڑے کے ٹٹوؤں کو اپنے ادارے میں شامل نہیں کرتا۔ ہر ادارے کے اپنے پسندیدہ نظریات وافکار ہیں اور وہ دن رات اس کے پرچار میں اور اپنے مخالفین کا تیا پانچہ کرنے پر تلے رہتے ہیں۔ یہ پہلی دفعہ ہوا کہ اپنا ہی ہتھیار خود اپنے خلاف استعمال ہوگیا ہے تو چیخیں نکل رہی ہیں۔ ایک طرف سے آزادیِ اظہار رائے پر ضرب لگانے کے دعوے کیے جارہے ہیں تو دوسری جانب سے پیشہ ورانہ ذمہ داری میں غفلت برتنے کا الزام کا ورد کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ بہتی گنگا میں سب نے ہاتھ دھوئے ہیں۔ نا جیو اتنا سیدھا ہے نا اے آر وائی، ونوں کو اپنے مفادات عزیز ہیں جن میں سب سے اول درجہ پیسے کا ہے۔ رمضان کی آمد آمد ہے، دونوں ادارے اسلام اور رمضان کے نام پر اپنے صارفین کو عامر لیاقت اور شائستہ واحدی جیسے "مبلغین اسلام" کے ذریعے اسلامی تعلیمات سے روشناس کروائیں گے۔ بکےگا تو صرف ضمیر، موت ہو گی توفرض شناسی کی، اور بے وقوف بنے گی تو یہ بیس کروڑ عوام جو سحروافطار کے دوران انہی لوگوں کے ارشادات عقیدت مندی سے دیکھ رہے ہوں گے۔ جو بکتا ہے بیچ دو، جو نہیں بکتا اسے پھینک دو۔ جہاں سے ملتا ہے لے لو۔ کہاں، کیوں اور کیسے کے سوالات چھوڑ دو۔

Monday 12 May 2014

لا یعنی پوسٹ

یہ ایک لایعنی پوسٹ ہے۔ اگر آپ اس میں سے کوئی معنی یا مطلب نکالتے ہوئے پائے گئے تو اس فعل کو آپ کی نادانی سمجھا جائے گا ۔ ایسی پوسٹ عموماَ بھرتی کی ہوتی ہیں جن سے بلاگ کا پیٹ بھرا جاتا ہے اور تاریخوں کا ہیر پھیر کیا جاتا ہے۔ ویسے تو آج (یا کل)کی تاریخ میں بہت کچھ ہوا ہے ، جیسے کے لاہوراور اسلام آباد میں انتخابی دھاندلی کے خلاف  احتجاجی جلسے، ایک سنسنی خیز آئی پی ایل کا میچ اور ہم دوستوں کی ایک ٹیپ بال کرکٹ سیریز، لیکن یہ اتوار کو وقوع پذیر ہوا ہے  اور جب میں یہ لایعنی و بے معنی پوسٹ لکھ رہا ہوں تو پیر کی صبح ہونے میں کچھ ہی گھنٹے باقی ہیں۔ کیونکہ اب مجھے ایک بے انتہا چبھتے ہوئے سوال پوچھتی   "پیر" کا سامنا کرنا ہے اس لیے میں اس لایعنی و بے معنی پوسٹ کا خاتمہ کرتا ہو ں اور امید کرتا ہوں کہ آپ کو میری طرح "پیر" چبھتی ہوئی محسوس نہیں ہوتی ہو گی۔
 

Sunday 4 May 2014

سلطان شہید

غینم چاروں اَور سے اس کی جانب بڑھا آ رہا تھا اور وہ بغیر کسی خوف کے ان کی جانب رخ کیے کھڑا تھا۔ اس کے مصاحبین میں سے ایک نے کہا کہ "سلطانِ مکرم جرات ودلیری دکھانے کا موقع یکسر ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ خود کو دشمن کے سپاہیوں پر ظاہر کر دیں تاکہ وہ آپ کی عزت و تکریم کریں اور آپ کونقصان نہ پہنچائیں۔ " آٖفرین ہے مگر اس شیر دلاور پر جس نے ایسے کڑے وقت میں بھی اپنے اوسان خطا نہ ہونے دیے اور کڑک کر اپنے مصاحب کو ڈانٹا اور وہ جملہ کہا جو اس کے بعد تاریخ میں امر ہوگیا  ۔ اس کے بعد جب کبھی انسانوں پر ایسا کڑا وقت آیا کہ اپنی جان یا عزت و وقار میں سے کسی ایک کا انتخاب کا معاملہ بن پڑا تو اسی ایک جملے کا سہارا لیا اور خود کو مصائب و الم جھیلنے کے لیے تیار کیا۔

"سعد آپ کیا کر رہے ہیں؟ کتاب کھول کر دیکھ رہے ہیں وہ بھی ایسے دھڑلے سے؟" میری استانی حیرت سے میری جانب دیکھتی ہوئی بولیں۔ یہ میری چوتھی جماعت  کا منظر ہے جو آج بھی میری اولین یادوں میں سے ایک ہے۔ جماعت میں ایک چھوٹا سا ٹیسٹ تھا اور ہمیں اردو کی کتاب کے ایک سبق کے بارے میں چند سوالوں کے جواب لکھ کردینے تھے۔ جیسے کہ اس وقت دستور تھا کہ بچے سوالات رٹ لیا کرتے تھے اور امتحانات میں من و عن اسے لکھ ڈالتے تھے۔ جو استاد نے لکھوا یا تھا ، اگر جواب ویسا ہی ہے یا پھر اس کے قریب بھی ہے تو جواب ٹھیک مانا جاتا تھا۔ آپ سے کسی قسم کی تحقیقی ، تخلیقی ، یا تجسس پر مبنی جوابات کی توقع نہیں کی جاتی تھی۔ اب میری بدقسمتی کے میرا ذہن رٹنے کے معاملے میں ایک دم کودن تھا، جبکہ میرا تخیل اتنا وسیع و عریض کہ بیٹھے بیٹھے کسی سبق میں بتائے گئے منظر کو اپنے سامنے مجسم دیکھ لیا۔ ایسے ہی چوتھی جماعت میں اردو کی کلاس میں ایک دفعہ دو اسباق کے بارے میں ٹیسٹ ہوا جس میں سے ایک باب کے سوالات میں سرے سے ہی بھول گیا اور جب لکھنے کی باری آئی تو میرا ذہن دھلی ہوئی ہوئی تختی کی مانند کورا تھا۔ اب جوابات لکھنا بھی ضروری تھے اور اس بات کا مجھے کیا پوری کلاس کو علم تھا کہ مس ثمینہ کو کہانیاں سخت ناپسند ہیں۔ بھلے وہ نزلے زکام اور سر درد کی ہوں یا ہوم ورک گھربھول آنے کی کہانی ہو۔ تو ایسی مس سے یہ توقع رکھنا کہ وہ اپنے لکھوائے ہوئے جوابات کی جگہ ایک کہانی دیکھ کر ایک چوتھی جماعت کے بچے کو معاف کر دیں گی تو یہ سرا سر آپ کی بھول ہے۔ تو میں نے کوشش کی کہ میز کے نیچے بنے ہوئے خانے میں رکھی ہوئی کتاب میں ایک جھانکی مار لوں اور جواب کچھ ملتا جلتا بنا لوں تو شائد میری بچت ہو جائے۔ تو جناب کتا ب کھولی، سبق ڈھونڈا اور پڑھنا شروع کر دیا۔ اب جو پڑھا تو سوالات اور ٹیسٹ تو بھول گیا سبق میں کھو گیا۔ مس نے پکڑ لیا اور اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا وہ حصہ ہے جسے میں دہرانا زیادہ پسند نہیں کرتا، حالانکہ اگر یہ قصہ دہرا یا جائے تو آج کل کی جدید تربیت یافتہ استانیوں کے لیے باعث حیرت ہو گا کہ کیسے ہتھیلیوں ، گال اور شرم کے مسلسل ملاپ سے سرخ  رنگ کے مختلف شیڈز بنتے ہیں۔

سلطان فتح علی ٹیپوسے یہ میری پہلی واقفیت تھی۔ اس کےبعد بھی میں جہاں کہیں اس کے بارے میں کوئی کتاب، مضمون، مقالہ ، یا قصہ کہیں دیکھ لیتا تو جب تک اسے پڑھ نہیں لیتا تو جیسے چین نہیں ملتا تھا۔ سلطان ٹیپو  ایسی شخصیت تھے کہ ان کے ساتھیوں نے تو ان کی ذات و صفات کے گن گائے ہی ہیں، ان کے دشمنو ں نے بھی انہیں ہدیہ تبریک پیش کیا ہے۔ لارڈ ولزلی جس نےسلطان کے ساتھ آخری مقابلے میں انگریزوں، مرہٹہ اور نظام دکن کی مشترکہ فوجوں کی کمان کی تھی ، سلطان کی بہادری اور جانبازی دیکھ کر اسے شاہی اعزاز و اکرام کے ساتھ دفن کیا۔  سلطان کی زندگی اور موت پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے لیکن ان کی زندگی کا سب سے تاریخی ماخذ سید میر حسن علی کرمانی کی فارسی میں لکھی ہوئی کتاب "نشانِ حیدری" ہے جو سلطان ٹیپو کی شہادت کے ٹھیک آٹھ سال بعد لکھی گئی۔  اس کتاب کا اردو ترجمہ جو میں نے پڑھا اس میں سلطان حیدر علی کے حالات واقعات بھی درج ہیں۔  یہ ایک نہایت بہترین اور تاریخی لحاظ سے درست ماخذ ہے جس سے دوسرے مورخین نے بھی فائدہ اٹھایا ہے۔

سلطان ٹیپو کے بارے میں جو واقعات مجھے پسند ہیں میں وہ لکھتا ہوں  جو میں نے تاریخی لحاظ سے درست پائے ہیں۔ میں نے  غیر مصدقہ اور حقیقت سے بعید روایتیں لکھنے سے گریز کیا ہے جیسے مثال کے طور سے ایک روایت جس کے مطابق انگریز سپاہی تین دن تک خوف کی وجہ سے سلطان ٹیپو کی لاش کے قریب نہیں آسکے۔

سلطان حیدر علی کی نرینہ اولاد نہیں ہوئی تھی جس کے باعث وہ کافی پریشان رہا کرتا تھا۔ ارکاٹ میں ٹیپو مستان ولی کے نام سے ایک بزرگ بہت مشہور تھے جن کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ مستجاب الدعاتھے ۔ سلطان حیدر علی نے ان کے مزار پر حاضری دی اور منت مانی کہ اگر ان کو اولادِ نرینہ نصیب ہوئی تو ہ اس کا نام ٹیپو رکھیں گے۔ اللہ کی قدرت کے اُسی سال (دس نومبر 1750ء) میں سلطان کو اللہ نے اولادِ نرینہ سے نوازا اور سلطان نے اپنی منت پوری کرتے ہوئے اپنے بچے کا نام فتح علی ٹیپو رکھا ۔


سلطان حید ر علی کو اپنے صوبہ داری کے دور میں ایک محلاتی سازش کا شکار ہونا پڑا جس کی وجہ سے ان کےاہل ِ خانہ کو ایک گھر میں قید کر دیا گیا جبکہ حیدر علی ایک مہم  پر کسی دوسرے علاقے میں گئے ہوئے تھے۔ ٹیپو کی عمر اس وقت تقریباََ سات سال تھی اور وہ اپنے گھر کے صحن سے دوسرے بچوں کو کھیلتا دیکھتے تھے۔ ٹیپو سلطان نے خود بعد میں بیان کیا کہ میں ایک دن ایسے ہی کھڑا تھا کہ ایک بوڑھا شخص وہاں سے گزرا اور جب انہیں وہاں کھڑا دیکھا تو کہا " اے بچے تو عنقریب اس ملک کا بادشاہ بنے گا، جب تو بادشاہ بن جائے تو اس جگہ ایک مسجد تعمیر کروا دینا"۔ سلطان نے وعدہ کر لیا۔ جب ٹیپو سلطان اپنے والد کی وفات کے بعد تخت پر بیٹھے تو انہیں اپنا وعدہ یاد تھا اور انہوں نے اپنے وعدے کے مطابق اس جگہ ایک شاندار مسجد تعمیر کروائی جس کا نام "مسجدِ اعلیٰ" ہے۔  

ایک دفعہ سلطان ٹیپو کے دربار میں ایک بزرگ آئے جن سے سلطان نے انگریزوں کے خلاف فتح حاصل کرنے کی درخواست کی، انہوں نے دربار میں بچھے ایک قالین کی طرف اشارہ کیا جس میں ایک شیر جھپٹتا ہو ادکھایا گیا تھا ۔ اس شیر کی پشت پر جھاڑیا ں تھیں جس میں ایک شخص چھپا بیٹھا تھا اور وہ شیر پر شُست باندھ رہا تھا۔ میدانِ جنگ میں یہ پیشن گوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی کہ سلطان دوبدو کسی مقابلے میں نہیں ہارا جب تک اس کی پشت پر موجود اس کے دربار کے لوگوں (میر صادق اور میر قمر الدین خان) نے اس سے غدار ی نہیں کی۔

انگریزوں  نے سنہ1792 ء میں سلطان  کے محل کے غداروں کی بہ دولت سرنگا پٹن کا محاصرہ کر لیا ، اسے میسور کی تیسری جنگ بھی کہا جاتا ہے۔  ٖغفار خان اور غازی الدین خان جیسے سرفروشوں کی وجہ سے مکمل شکست سے تو بچ گئے، مگر صلح کی شرائط کے طور پر سلطان کو اپنی سلطنت کا بہت بڑا حصہ چھوڑنا پڑا اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے دوبیٹوں کو زرِ ضمانت کے طور پر انگریزوں کی تحویل میں دینا پڑا۔ جب یہ شرط پیش کی گئی تو انگریزوں کی طرف سے شاہی خاندان کے کوئی بھی دو فرد کی شرط پیش کی گئی تھی اور سلطان اپنے بھتیجوں، بھانجوں اور دوسرے رشتہ داروں کو بہ حکم ِ حاکم بھیج سکتا تھا لیکن  اس کی غیرت نے گوارا نہیں کیا  کہ کسی اور کی اولاد کو اس آزمائش کی گھڑی میں آگے کردے اور اپنی اولاد کو بچا لے، اسی لیے سلطان ٹیپو کے دو بیٹے معز الدین سلطان اور عبدالخالق سلطان کو بہ حیثیت کفیل انگریزوں کے سپرد کر دیا۔

دھوندو جی واگیہ ایک ڈاکو تھا لیکن بلا کا چست و چالاک اور دلیر انسان تھا۔ سلطان ٹیپو کے پاس مسلسل اس کی لوٹ مار ، بہادری اور غریبوں مسکینوں کی مدد کے واقعات پہنچ رہے تھے۔ آخر کار جب وہ گرفتار ہو کر پیش کیا گیا تو سلطا ن ٹیپو نے اسے معاف کر کے فوج کا عہدہ  پیش کیا ۔ دھوندو جی واگیہ جو اپنے قتل کے احکامات سننے کا منتظر تھا  ایسا لطفِ کریمانہ دیکھ کر بے اختیار کلمہ پڑھ بیٹھا اور سلطان ٹیپو نے اسے  ملک جہاں خان کا خطاب دیا۔ یہ وہ واحد شخص تھا جو سلطان ٹیپو کی شہادت کے بعد بھی انگریزوں سے برسر پیکار رہا ، جلال الدین خوارزم جو چنگیز خان کی فوجو ں کے آگے اپنی سلطنت ہارنے کے بعد بھی سینہ سپر ہو گیا تھا،  کی طرح ملک جہاں خان بھی انگریزوں سے چھاپہ مار لڑائی لڑتا رہا  ۔اس کے انجام کے بارے میں تاریخ خاموش ہے لیکن اس کی وفاداری اور دلیری کے قصے تاریخ کا حصہ بن گئے۔

مئی 1799 : دشمنوں کا سیل بے پناہ قلعہ سرنگا پٹن کی دیواروں سے ٹکرا رہا تھا۔ ایسے نازک موقع پر سلطان نے کسی اور جگہ منتقل ہو نے کااردہ نہیں کیا اور آخری وقت تک جان لڑانے کا فیصلہ کر لیا۔ قمر الدین خان اور میر صادق کی غداری کی وجہ دشمن روز بروز قلعے پر چڑھا آتا تھا اور سلطانی لشکر کو مون سون کی اس بارش کا انتظار تھا جو دریائے کاویری کو بھر دیتی اور دشمن کی اس بے پناہ قوت اور غداروں کی اس سازش کو بھی ناکام بنا دیتی، لیکن شائد قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔  4  مئی 1799 ء کو منجموں کا ایک گروہ سلطان کے حضور پیش ہوا اور کہا کہ" آج کا دن آپ کے لیے روزِ بد ہے اور آج دوپہر کی ساتویں گھڑی آپ پر بھاری رہے گی اور قلعہ کے اطراف بھی نحوست گرد اڑاتی رہے گی ۔ بہتر ہے کہ حضرت شام تک لشکر کے جلو میں رہیں اور راہِ خدا میں صدقہ دیں"۔ اگرچہ سلطان کو یہ رائے گوارا نہیں تھی، لیکن پھر بھی صدقہ کا سامان تیار کرنے کا حکم دے دی۔ صدقہ و خیرات کرنے کے بعد سلطان ٹیپو دستر خوان پر بیٹھا اور ایک لقمہ تناول کیا ، ابھی دوسرا لقمہ اٹھایا ہی تھا کہ شہر کی طرف سے آہ وفغاں کا شور اٹھا۔ اس شور کے سنتے ہی سلطان ٹیپو نے دوسرا لقمہ ہاتھ سے رکھ دیا اور پوچھا کہ یہ شور کیسا ہے؟ مصاحبین نے بازپرس کے بعد عرض کی "سید غفار(جو سرنگا پٹن کا قلعہ دار اورنہایت جری اور وفادار سپہ سالار تھا)  دشمن کی توپ کا گولہ لگنے سے حضور پر قربان ہو گیا ہے اور دشمن قلعہ پر بلا مزاحمت چڑھا آرہا ہے"۔

سلطان ٹیپو نے ہاتھ دھو لیے اور کہا "بس ہم بھی چلے" یہ کہا اور باہر آکر ایک گھوڑی پر سوار ہوئے اور چند  جانثاروں کے ساتھ ندی کی جانب والے دریچہ میں سے ہوتا ہوا قلعہ سے باہر نکلا اور مغربی مورچے کی جانب سے دشمنوں پر حملہ کرنے کےلیے گھوڑی کو ایڑلگائی۔ ایسے نازک موقع پر جب دشمن فصیل توڑ کر اندر داخل ہوا چاہتا تھا میر صادق نے سپاہیوں کو تنخواہ دینے کے بہانے فصیل سے ہٹا لیا اور دشمن خالی فصیل پا کر اندر تک دَر آیا۔ جب تک سلطان محاذ تک پہنچا تو دشمن قلعے کے اندرپہنچ چکا تھا۔ غینم چاروں جانب سے اس کی جانب بڑھا آ رہا تھا اور وہ بغیر کسی خوف کے ان کی جانب رخ کیے کھڑا تھا۔ اس کے مصاحبین میں سے ایک نے کہا کہ "سلطانِ مکرم جرات ودلیری دکھانے کا موقع یکسر ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ خود کو دشمن کے سپاہیوں پر ظاہر کر دیں تاکہ وہ آپ کی عزت و تکریم کریں اور آپ کونقصان نہ پہنچائیں۔ " آٖفرین ہے مگر اس شیر دلاور پر جس نے ایسے کڑے وقت میں بھی اپنے اوسان خطا نہ ہونے دیے اور کڑک کر اپنے مصاحب کو ڈانٹا اور کہا "شیر کی ایک دن کی زندگی، گیڈر کی ہزار سالہ زندگی سے بہتر ہے"۔  یہ کہہ کر دشمن کے ایک گروہ پر شیر کی طرح جھپٹ پڑے۔ جگہ نہایت تنگ تھی، پھر بھی انہوں نے بندوق اور تلوار سے دو تین سپاہیوں کو موت کے گھاٹ اتارا اور پھر ایک سپاہی کی بندوق سے نکلی گولی اس عظیم بادشاہ کا چہرہ زخمی کر گئی۔ سلطان ٹیپو زخم کھا کر گرا   تو کسی انگریز سپاہی نے اس کو مردہ جان کر اس کے قیمتی کمر بند پر ہاتھ ڈالا اور کھینچنے لگا، سلطان ٹیپو نے جسم کی آخری تمام قوت مجتمع کر کے اپنی تلوار سے ایک کاری وارکیا اور اس سپاہی کا ہاتھ کٹ کر جسم سے الگ ہو گیا۔ ایک دوسرے انگریز سپاہی نے سلطان کے چہرے کے بالکل سامنے رکھ کر بندوق داغی اور یہ شیروں کی طرح جینے والا سلطان نے جامِ شہادت نوش کیا۔ انا للہ وانا علیہ راجعون۔

رات سر پر آپڑی  مگر انگریز سپہ سالار مطمئن نہیں تھا کیونکہ سلطان کی نعش کا ابھی تک کوئی پتہ نہیں تھا۔ آخر کار کسی نے اس جگہ کی نشاندہی کی جہاں سلطان شہید ہوئے تھے اور انگریزوں کو کئی لاشوں کے نیچے دبی ہوئی اس بطلِ جلیل کا جسم مل گیا۔ شاہی خاندان کے افراد اور دوسرے لوگوں سلطان ٹیپو کے وجود کی شناخت کے بعد انگریزوں نے اگلے دن پورے فوجی اعزاز کے ساتھ تدفین کی اجازت دی اور سلطان ٹیپو کو سرنگا پٹن کے قلعے میں اس کے والدکے پہلو میں دفن کر دیاگیا۔ سلطان کی وفات   کے وقت ایسا زوروں   کا طوفان آیا کہ ایک انگریز فوجی اپنے روزنامچے میں لکھتا ہے کہ "میں نے اپنی زندگی میں کئی سمندری طوفان اور بارشیں دیکھیں ہیں، لیکن میں نے کبھی ایسی شدت کا طوفان اپنی زندگی میں نہیں دیکھا"۔یہ وہی مون سون کی بارش تھی جس کا سلطان ٹیپو کے وفادار سپاہیوں کو انتظار تھا۔

مشتاق احمد یوسفی اپنی کتاب "آبِ گم"(صٖفحہ 309) میں لکھتے ہیں" انہیں یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوا  کہ حلوائی اور بچے اس کتے کو ٹیپو! ٹیپو! کہہ کر بلا اور دھتکار رہے تھے۔ سرنگا پٹم کی خون آشام جنگ میں ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد انگریزوں نے کثرت سے کتوں کا نام ٹیپورکھنا شروع کر دیا تھا۔ اور ایک زمانے میں یہ نام شمالی ہندوستان میں اتنا عام ہوا کہ خود ہندوستانی بھی آوارہ و بے نام کتوں کو ٹیپو کہہ کر ہی بلاتے اور ہشکارتے تھے۔ یہ جانے بغیر کہ خود کتوں کا یہ نام کیسے پڑا۔ باستثنائے نپولین اور ٹیپو سلطان، انگریزوں نے ایسا سلوک اپنے کسی اور دشمن کے ساتھ روا نہیں رکھا۔ اس لیے کہ کسی اور دشمن کی ان کے دل میں ایسی ہیبت اور دہشت کبھی نہیں بیٹھی تھی۔ برِصغیر کے کتے سو سال تک سلطان شہید کے نام سے پکارے جاتے رہے۔ کچھ برگزیدہ شہید ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی آزمائش، عقوبتِ مطہرہ، اور شہادتِ عظمیٰ ان کی موت  کے ساتھ ختم نہیں ہوتی۔ رب جلیل انہیں شہادتِ جاریہ کی سعادت سے سرفراز فرماتا ہے۔ "