Monday 20 January 2014

لفظوں کے اسیر

لفظوں میں کتنی طاقت ہوتی ہے یہ جاننے کے لیے کسی ماہرِ زبان یا کسی عالم کی لکھی ہوئی کتاب پڑھنی ضروری نہیں ہے۔کیونکہ ہم میں سے ہر شخص لفظوں کا اَسیر ہوتا ہے۔ یہ الفاظ ہی ہوتے ہیں جو جسم میں دوڑتے لہو کو آتش فشاں سے نکلے ہوئے لاوے کی مانند بنا دیتے ہیں۔ الفاظ ہی ہوتے ہیں جو لوگوں عرقِ ندامت میں شرابور کر دیتے ہیں اور کبھی آنکھوں سے دریا بہانے پر مجبور کردیتے ہیں تو کبھی ہنسی اور مسکراہٹ بکھیر دیتے ہیں۔ پچھلی صدی میں ہم نے ہٹلر جیسے شعلہ بیاں مقرر کے لفظوں سے مغلوب جرمن قوم اور دوسری جنگِ عظیم کی وحشتیں پڑھی اور دیکھی ہی۔ ماضی میں ایسی کئی اور مثالیں موجود ہیں جس میں مقریرین نے اپنی شعلہ بیانی سے لوگوں کو ناقابلِ یقین کام کرنے پر آمادہ کیا۔ 

ایسی کئی فلموں اور ان میں عکسبند کئے ہوئے مناظر میرے پسندیدہ ہیں جہاں اداکاروں نے اپنی صداکاری، مہارت اور لفظوں کی شاندار ادائیگی سے ان مناظر کو امر کر دیا ہے۔ مجھے یقین ہے زندگی کے کسی نا کسی لمحے میں آپ نے بھی یقیناَاپنے گرے، تھکے، اور شکستہ وجود کو پھر سے حالات وواقعات کے مقابلے پر آمادہ کرنے کے لیے لفظوں کا سہارا لیا ہوگا۔ بھلے یہ لفظ کسی مذہبی عالم کے بتائے ہوئے اوراد ہوں، یا کسی مشہور مصنف کا لکھا ہوا کوئی فقرہ، یا پھر کسی دوست یا عزیز کے کہے ہوئے الفاظ جنہوں نے آپ کو پھر سے اپنے قدموں پر کھڑا ہونے میں مدد دی ہو گی۔

لفظوں کا اسیر ہونے میں کوئی برائی نہیں ہے لیکن ان اوزاروں کو کبھی بھی کسی شخص کو زخم لگانے کے لیےاستعمال نہیں کرنا۔ آپ نے شیر اور انسان کی وہ مشہور کہاوت تو سُن رکھی ہو گی جس میں انسان شیر کے منہ کی بدبو کا تذکرہ کرتا ہے اور شیر یہ سننے کے بعد انسان کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنی تلوار سے اِسے زخم لگائے، زخم کھانے کے بعد شیر جنگل چلا جاتا ہے۔  کچھ عرصے بعد جب شیر واپس آتا ہے تو تلوار کا گھاؤ تو بھر چکا ہوتا ہے لیکن انسان کے کہے ہوئے الفاظوں کی تکلیف شیر کو انسان کی دوستی چھوڑ دینے پر مجبور کردیتی ہے۔ اسی طرح ہمیں اپنے لفظوں کو نہایت احتیاط سے استعمال کرنے کی عادت ہونی چاہیے۔ورنہ ہم اکیلے رہ جائیں گے۔


Follow me on Twitter

Wednesday 1 January 2014

نیا سال

دسمبر کی پہلی پوسٹ دسمبر کی آخری پوسٹ ہی ثابت ہوئی۔ کوشش تو یہ تھی کہ کچھ نا کچھ اس بلاگ پر پوسٹ ہوتا رہے تاکہ خیالات کی صفائی ہوتی رہے، لیکن سگنس میڈیا جوائن کرنے کے بعد سے وقت نکالنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ کام کے اوقاتِ کار بہت مناسب ہیں لیکن سفر اور تھکن کچھ بھی مزید کرنے کے عمل کو بہت مشکل امر بنا دیتی ہے۔

نیا سال حسبِ معمول پٹاخوں کی گونج، مبارکبادوں کے شوراور نئے عزائم کے اعلانات کے ساتھ شروع ہوا۔ لیکن ان سب چیزوں میں کمی اگر تھی تو نئے پن کی جس کی شکایت فیض احمد فیض نے بھی اپنی ایک نظم میں کی ہے۔

اے نئے سال بتا تجھ میں کیا نیا پن ہے؟
کیوں ہر طرف خلق نے شور مچا رکھاہے؟
روشنی دن کی وہی ، تاروں بھری رات وہی
آج ہم کو نظر آتی ہے ہر ایک بات وہی
آسماں بدلا ہےافسوس، نا بدلی ہے زمیں
ایک ہندسے کا بدلنا کوئی جدت تو نہیں
پچھلے برسوں کی طرح ہوں گے قرینے تیرے
کسے معلوم نہیں بارہ مہینے تیرے
جنوری، فروری اور مارچ میں ہو گی سردی
اور اپریل مئی جون میں ہو گی گرمی
انسان دہر میں کچھ کھوئے گا کچھ پائے گا
اپنی معیاد ختم کر کے چلے جائے گا
تو نیا ہے تو دکھلا صبح نئی، شام نئی
ورنہ ان آنکھوں نے دیکھے ہیں نئے سال کئی
بے سبب لوگ دیتے ہیں کیوں مبارک بادیں
غالباَ بھول گئے وقت کی کڑوی یادیں
تیری آمد سے گھٹی عمر جہاں سے سب کی
فیض نے لکھی ہے یہ نظم نرالے ڈھب کی

تو آپ کو نئے سال کی مبارک باد بھی دیتے ہیں اور ساتھ ہی فیض کی یہ نظم تحفہ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ آپ نظم سے اپنا منہ میٹھا کریں اورہماری دعا ہے کہ یہ سال آپ کی تمام کاوشوں کے لیے ثمر آور ہو۔