Sunday 16 February 2014

پاکستانی حکومت

پاکستانی حکومت کا اس وقت وہی عالم ہے جو کراچی میں چلنے والی بسوں کا ہوتا ہے۔ جن کے پیچھے بڑی محبت اور حکمت سے لکھا ہوتا ہے "چلی جا رہی ہے خدا کے سہارے"۔ سمجھ نہیں آتی کہ امن و امان اور معیشت کی بحالی کے علاوہ وہ اور کونسے منظر نامے ہیں جو وزیرِ اعظم پاکستان اور ہمارے باقی لیڈران کو اتنا تھکا دیتے ہیں کہ وہ کبھی بیرونِ ملک اور کبھی اندرونِ ملک آرام کرنے کے بہانے ڈھونڈ لیتے ہیں۔ عمران خان کسی بھی طرح مذاکرات کو ہر صورت کامیاب (عارضی طور سے ہی سہی) دیکھنا چاہتے ہیں۔ تاکہ عوام الناس کے بڑے مجمع کے سامنے "ہم نے تو پہلے ہی کہا تھا" یا "مستند ہے میرا فرمایا ہوا" کا اظہار فرما سکیں۔ 
سندھ حکومت پچھلے 30 سالوں سے اسی حالت میں ہے جس میں اس بدقسمت صوبے کے وزیرِ اعلیٰ کی موجودہ عمر اور صحت ہے۔ دوسرے صوبوں کو تو پھر یہ ڈر ہے کہ اگر کوئی کام (اگر چہ میٹرو بس اور لیپ ٹاپ جیسے ہی کیوں نا ہوں) نہیں کیے تو الیکش نتائج پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔ لیکن سیاسی لاشوں اور مشکل حالات میں جیتےمظلوم سندھیوں کے طفیل کئی عشروں سے سندھ کی حکومت ان کے گھر کی باندی بنی ہوئی ہے۔ اور سندھ فیسٹیول اور ٹویٹر کے بیانات سے صاف ظاہر ہے کہ اس منظر نامے کے تبدیل ہونے کی کوئی صورت نہیں دکھتی کیونکہ حکمرانوں کی نئی نسل مظلوم اور بے چارے ہاریوں پر حکومت کرنے کے لیے تیار اور پُر عزم ہے۔

Wednesday 5 February 2014

سن تو سہی جہاں میں تیرا فسانہ ہے کیا


وہ بھی کیا دور تھا جب ہم چھوٹے ہوا کرتے تھے اور کسی کام کاج کی کوئی فکرنہیں تھی۔ لیکن یہ کیا کہ جیسے ہی تھوڑا بڑے ہوئے لوگوں نے توقعات باندھنی شروع کر دیں۔ توقعات بھی ایسی ایسی کہ بقول غالب
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
کسی رشتے دار کو یہ توقع کہ یہ چھوٹے میاں بڑے ہو کر سرکاری افسر بنیں گے۔ کسی محلے والے کی دعا کہ شانی میاں تو وزیر بنیں گے (موجودہ سیاسی تناظر میں اب تو یہ بد دعا لگتی ہے)۔ گھر والوں کی خواہش کہ ہمارا بیٹا انجینئر بنے۔ اگر وہ نہیں بنتا تو کم از کم ڈاکٹر تو بن ہی جائے ورنہ فوج میں بھرتی ہو کر شہادت کا رتبہ پا لے تاکہ گھر والوں کی عاقبت ہی سنور جائے۔

لیکن قسمت کے لکھے کو کیا کریں کہ جب ہم چھوٹے تھے تو دل میں سوائے دولہا بننے کے اور کوئی خواہش ہی نہیں تھی۔ تھوڑا بڑے ہوئے اور اس خواہش کے پورا ہونے کے مضمرات سمجھ اور نظر آئے (شادی شدہ دوستوں کا حال دیکھ کر) تو ہم نے صدقِ دل سے توبہ کی اور خدا سے اپنے کردہ اور ناکردہ گناہوں کی معافی طلب کی۔ پھر سوچا گیا کہ بھئی اب کیا بنا جائے؟

پڑھائی لکھائی کی طرف اپنا رجحان دیکھتے ہوئے اور ہمارے استادوں کے مسلسل حوصلہ شکن بیانات کی روشنی میں، جو وہ ہر سال کی رپورٹ کارڈ پر نہایت عمدہ رسم الخط میں درج کیا کرتے تھے، ہمارے گھر والوں نے ہم سے باندھی ہوئی توقعات کو کچھ اس طرح سمیٹا تھا کہ "کبھی ان کو اور کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں" کا مصرعہ نہایت ہی عبرت ناک انداز میں ہم پر چسپاں ہوتا تھا۔ خیر گھر والوں کی بددلی اور خود سے اُن کی مایوسی دیکھ کر ہمیں کچھ احساس ہوا کہ بھئی زندگی میں کچھ تو کرنا چاہئیے۔

تعلیم مکمل کرنے کے بعد ہم نے مختلف جگہوں پر نوکری کے لیے درخواستیں جمع کروانی شروع کیں اور "ضرورتِ رشتہ" کے صفحات کا پیچھا چھوڑ کر "ضرورت ہے" کے اشتہارات دیکھنے لگے۔ ویسے یہ ایک دلچسپ مشق تھی۔ کئی اشتہارت اتنے اشتہا انگیز اور لذیز ہوتے تھے کہ ہم سوچتے تھے کہ کیا ضرورت ہے چند ہزار کی نوکری ڈھونڈنے کی اس امریکن بیوہ سے شادی کر لیتے ہیں اور باقی زندگی عیش سے گزارتے ہیں۔ کیا ہوا جو ہمیں اس جانور سے تشبیح دی جائے گی جس کا پالنا تو درکنار اپنے گھر میں حفاظت کے نقطہء نظر سے رکھنا بھی ہر مسلمان حرام سمجھتا ہے۔ لیکن اقبال نے ہمیں ایسے موقع پر جھنجھوڑا اور غلامی اور خوابِ غفلت میں پڑے رہنے پر بُرا بھلا کہا۔ یہ اقبال ہمارا بچپن کا دوست اقبال ہے، کیونکہ اگر ہم شاعرِ مشرق کے کلام کو سمجھ سکتے تو کسی یونیورسٹی کے پروفیسرہوتے۔

خیر قصہ مختصر، تھوڑے ہی عرصے میں ہمیں ملاقات کے سندیسے آنے لگے۔ اب ملاقات سے مراد وہ ملاقاتیں نہیں تھیں، جو اکثر آپ کو کسی سرسبز باغ کی گھنی جھاڑیوں کے پیچھے دکھتی ہے اور نا ہی یہ اس ملاقات کا سندیسہ تھا کہ جس کے اختتام پر نعرہ لگتا ہے "ملاقات کا 'ٹیم' ختم ہو گیا ہے"۔ یہ ان دونوں ملاقاتوں سے زیادہ خطرناک ملاقات یعنی انٹرویو کے سندیسے تھے۔ ہر ملاقات پر یہ سوال ضرور پوچھا جاتا کہ "پانچ سال بعد خود کو کہاں دیکھتے ہیں" اب یہ سوال ایسا دہشت ناک تھا کہ جس کا جواب ہم اپنی تعلیمی زندگی کے دوران اور مختلف تجربات اور اساتذہ اور ساتھیوں کی ہمت افزائی کے باعث کبھی حوالات، پاگل خانے، قومی و صوبائی اسمبلی، اور اگر بہت دل بڑا کر لیا جائے تو کسی سڑک کے کنارے جھاڑو پھیرتے ہوئے دیکھا کرتے تھے، لیکن اب یہ سب تو انٹرویو کرنے والے کو نہیں بتایا جاسکتا تھا۔ اس لیے ہم نے اپنی طرف سے ایک فرضی مستقبل تراش لیا۔ 

"ہم خود کو پانچ سال بعد اس ملک کے سب سے بڑے لکھاری اور شاعر کی صورت میں دیکھتے ہیں"۔ یہ تھا وہ جواب جس کو سنتے ہی تقریباَ تمام انٹرویو کرنے والوں کے منہ کھلے کہ کھلے رہ جاتے۔ ایمان کی بات ہے کہ آخری چند انٹرویو سے، ہم بھی انٹرویو کرنے والوں کی اس کیفیت کا حِظ اٹھانے لگےہیں۔ کیونکہ اس جواب سے پہلے، انٹرویو کے باقی تمام وقت ہمارا منہ ہی "ہکہ بکہ" کی کیفیت میں کھلا رہتا تھا۔ ایک خوش شکل بی بی تو اس قدر حیران ہوئیں کہ انٹرویو کے باقی تمام سوالات پوچھنا ہی بھول گئیں اور گھبراہٹ میں پانی کی بوتل میز پر انڈیل بیٹھیں۔ پتا نہیں موجودہ دور کی خواتین شاعروں اور لکھاریوں سے اتنا گھبراتی کیوں ہیں۔ ہم نے پوچھا تو نہیں لیکن ہمیں شبہ ہے کہ اس خوش شکل بی بی نے جوش ملیح آبادی کی "یادوں کی برات" پڑھ رکھی تھی۔ شاعروں کے کردار کا جتنا بیڑا غرق اس ایک کتاب نے کیاہے، پچھلی صدی کے تمام نکمے، ناکارہ، ناکام، اور عشق پیشہ شاعروں نے مل کر بھی اتنا نقصان نہیں پہنچایا۔

شاعروں کا نکما پن، پینے پلانے کی عادات، بلاتفریقِ جنس معاشقے، کسی بھی تعمیری کام میں عدم دلچسپی، سیاسی معاملات میں زبان درازی اور ان سب کے نتیجے میں حوالات کی سیر جیسے نا مٹنے والے نشانات تمغوں کی صورت میں شاعروں اور لکھاریوں کی آنے والی تمام نسلوں پرچسپاں ہو گئے۔ اب کسی شاعر کے بارے میں لوگوں کو پتا چل جائے کہ یہ "مشروبِ مغرب" سے شغل نہیں فرماتے تو لوگ حیرت سےپوچھتے ہیں "ارے! شراب نہیں پیتے؟ تو شاعری کیسے کرتے ہیں؟" اکثر صورتوں میں ہم نے دیکھا ہے کہ لوگوں کا اُس شاعر یا لکھاری سے اعتبار ہی اٹھ جاتا ہے، "ضرور کسی اور سے لکھواتے ہوں گے"۔


خیر جناب ہم شاعر یا ادیب بن سکیں یا نہیں، مگر یہ تو طے ہے کہ اپنے تئیں  اپنا  تعارف مستقبل کے عظیم شاعر اور لکھاری کے طور سے ہی کرواتے ہیں کیونکہ یہ ایک ایسا منصب ہے جس کو حاصل کرنے میں ناکام ہونا ہی کامیابی کی دلیل سمجھا جاتا ہے۔ یعنی اگر آپ شاعر اور لکھاری کی حیثیت سے کامیاب نا ہوسکیں تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے ابدی اور آفاقی پیغام کو یہ زمانہ سمجھ ہی نہیں سکا اور ہمارے جانے کے بعد ہماری اور ہمارے کلام کی قدر کی جائے گی۔ جیسے کے ہر مشہور ادیب اور شاعر کے ساتھ ہوتا آیا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ہمارا کلام ردی میں تُلے یا پھر سموسے اور پکوڑے لپیٹنے کے کام آئے۔