Wednesday 1 January 2014

نیا سال

دسمبر کی پہلی پوسٹ دسمبر کی آخری پوسٹ ہی ثابت ہوئی۔ کوشش تو یہ تھی کہ کچھ نا کچھ اس بلاگ پر پوسٹ ہوتا رہے تاکہ خیالات کی صفائی ہوتی رہے، لیکن سگنس میڈیا جوائن کرنے کے بعد سے وقت نکالنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ کام کے اوقاتِ کار بہت مناسب ہیں لیکن سفر اور تھکن کچھ بھی مزید کرنے کے عمل کو بہت مشکل امر بنا دیتی ہے۔

نیا سال حسبِ معمول پٹاخوں کی گونج، مبارکبادوں کے شوراور نئے عزائم کے اعلانات کے ساتھ شروع ہوا۔ لیکن ان سب چیزوں میں کمی اگر تھی تو نئے پن کی جس کی شکایت فیض احمد فیض نے بھی اپنی ایک نظم میں کی ہے۔

اے نئے سال بتا تجھ میں کیا نیا پن ہے؟
کیوں ہر طرف خلق نے شور مچا رکھاہے؟
روشنی دن کی وہی ، تاروں بھری رات وہی
آج ہم کو نظر آتی ہے ہر ایک بات وہی
آسماں بدلا ہےافسوس، نا بدلی ہے زمیں
ایک ہندسے کا بدلنا کوئی جدت تو نہیں
پچھلے برسوں کی طرح ہوں گے قرینے تیرے
کسے معلوم نہیں بارہ مہینے تیرے
جنوری، فروری اور مارچ میں ہو گی سردی
اور اپریل مئی جون میں ہو گی گرمی
انسان دہر میں کچھ کھوئے گا کچھ پائے گا
اپنی معیاد ختم کر کے چلے جائے گا
تو نیا ہے تو دکھلا صبح نئی، شام نئی
ورنہ ان آنکھوں نے دیکھے ہیں نئے سال کئی
بے سبب لوگ دیتے ہیں کیوں مبارک بادیں
غالباَ بھول گئے وقت کی کڑوی یادیں
تیری آمد سے گھٹی عمر جہاں سے سب کی
فیض نے لکھی ہے یہ نظم نرالے ڈھب کی

تو آپ کو نئے سال کی مبارک باد بھی دیتے ہیں اور ساتھ ہی فیض کی یہ نظم تحفہ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ آپ نظم سے اپنا منہ میٹھا کریں اورہماری دعا ہے کہ یہ سال آپ کی تمام کاوشوں کے لیے ثمر آور ہو۔ 

No comments:

Post a Comment