Saturday 8 November 2014

واہگہ اور کوٹ رادھا کشن

پچھلے کچھ دنوں میں اس ملک پر کئی ناگہانی آفات گزری ہیں۔ ان تمام واقعات میں سے دو بڑی  آفتیں کئی قیمتی جانوں کے نقصان کا باعث بنی ہیں۔ ایک واقعے میں واہگہ بارڈر پر ہونے والے خود کش دھماکے میں 61   جانوں کا نقصان ہوا۔ اس حادثے میں ہلاک ہونے والوں میں عورتوں اور بچوں کی بھی ایک بڑی تعداد شامل ہے جبکہ ایک ہی خاندان کے کئی افراد بھی اس دہشت گردی کا نشانہ بنےہیں۔   دوسرے واقعے میں پنجاب کے ایک گاؤں کوٹ رادھا کشن میں اینٹوں کے بھٹے پر کام کرنے والے دو افراد(میاں بیوی  )کو مشتعل افرا د کے ایک گروہ نے توہین ِ مذہب کے جھوٹے الزام پر تشدد کرنے کے بعد جلتی ہوئی بھٹی میں پھینک کر زندہ جلا دیا۔  یہ دونوں افسوسناک واقعے مذہبی شدت پسندی کے زہرِ قاتل کے دو رخ ہیں ۔ پہلے واقعے میں طالبان نے اسلام کے نام پر کئی معصوم اور بے گناہ افراد کو ہلاک کیا جبکہ دوسرے واقعے میں ایک ظالم مالک نے اپنی وحشی جبلت اور ظلم وجبر کو چھپانے کے لیے جس طرح اسلام کو بدنام کیا ہے وہ حکومتِ پاکستان ، مملکت ِ پاکستان اور اس کے باسیوں پر ایک بدنما داغ ہے۔

اینٹوں کے بھٹے پر گزرنے والی دردناک زندگیوں کی روداد  اگر کسی کو جاننے کی خواہش ہے تو وہ شوکت صدیقی کے طویل ناول "جانگلوس" کا مطالعہ کرے۔ بھٹے کا مالک کس طرح اپنے ملازمین (یہاں غلام لکھنا  زیادہ بہتر ہوتا) کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے اور جب وہ دیکھتا ہے کہ اس کے غلام مزید اذیت بھری زندگی گزارنے سے انکاری ہیں تو وہ انہیں ڈرانے دھمکانے  یا سبق سکھانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتا ہے  ۔ اس میں مار پیٹ ، بھوک پیاس، ذلت و بے عزتی کے ساتھ موت جیسے دردناک انجام بھی شامل ہوتے ہیں۔ کئی برسوں بعد جب میں نے  2013 میں اس عظیم ناول کا دوبارہ مطالعہ کیا تو میں نے دل میں سوچا کہ شائد  اب ظلم اور بربریت  کا ایسا کھلا مظاہرہ پاکستان  میں نہیں ہوتا ہو گا۔ اخبارات ، ٹی وی، اور انٹرنیٹ سے مزین ہمارے جدید پاکستان میں بھٹے کے مالکان کم ازکم کسی کو غلاموں کی طرح کام کرنے پر مجبور نہیں کر سکتے ہوں گے۔  مگر کوٹ رادھا کشن کے اس واقعے نے  میری غلط فہمی دور  کردی۔

بھٹے کے مالکان کسی بھی طرح خرکار کیمپ اور بے گار کیمپوں سے مختلف نہیں ہوتے ۔ جہاں لوگوں کو اغوا  کرنے کے بعد ان کی مرضی کے خلاف ان سے مشقت لی جاتی ہے اور بدلے میں دو وقت کی روٹی اور سال میں دو جوڑے فراہم کیے جاتے ہیں۔  طریقہ کار بھی اب تک ویسا کا ویسا ہی ہے جیسا آج سے پچاس سال پہلے کے پاکستان  میں شوکت صدیقی نے بیان کیا تھا۔ اغوا تو اب شائد نہیں کیا جاتا لیکن معاشی مشکلات کا شکار غریب لوگوں کو پہلے پہل نوکری دینے کے بہانے گھیر گھار کر ان اینٹوں کے بھٹے پر لایا جاتا ہے اور پھر "مدد" کے نام پر سودی قرضوں سے انہیں ایسا جکڑا جاتا ہے کہ وہ زندگی پھر ان زنجیروں سے آزاد نہیں ہوپاتے۔ ایک بار جب یہ قرضہ کوئی لے لے تو پھر جب تک وہ زندہ رہتا ہے اس وقت تک انہیں اینٹوں کے بھٹے سے نجات نہیں ملتی، ہاں یہ ضرور ہوتا ہے کہ اسے سرکشی یا کسی بیماری کی صورت میں دوسرے بھٹے کے مالک کو فروخت کر دیا جاتاہے ۔  اینٹوں کے بھٹے پر ہی ان کی شادیاں ہوتی ہیں اور انہی جگہوں پر ان کی اگلی نسل جنم لیتی ہے اور پھر انہی بھٹو ں میں خاک ہو جاتی ہیں۔  اگر کوئی سرکشی دکھائے  تو اسے کوٹ رادھا کشن جیسے مظلوموں کی طرح صفحہ ء ہستی سے مٹا دیا جاتا ہے۔ یہ ظلم  پاکستا ن  میں کئی عشروں سے جاری و ساری ہے۔   

کوٹ رادھا کشن کے محنت کشوں کا قصور یہ نہیں تھا کہ وہ عیسائی تھے  یا وہ (جھوٹے الزام کے مطابق )مقدس اوراق کی توہین  کے مرتکب ہوئے تھے۔ ان کا سب  سے بڑا قصور یہ تھا کہ انہوں نے اپنی اگلی نسل کو اس بھٹے کی غلامی سے نکالنے کی کوشش کی تھی۔ یہ بدنصیب جوڑا بھٹے کے مالک کے کئی لاکھ روپوں کے مقروض تھے انہیں اس قرضے سے خلاصی کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی ، انہوں نے بھاگنے کی کوشش کی اور بدقسمتی سے پکڑے گئے۔ بھٹے کے مالک نے انہیں  اور بھٹے پر موجود ان جیسے کئی دوسرے غلاموں کو سبق سکھانے کے لیےعبرت کا نمونہ بنانے کی ٹھانی۔ قریب موجود مسجد کے لاؤڈاسپیکر سے توہینِ مذہب کا  فتویٰ  اس وقت تک نشر ہوتا رہا جب تک کوٹ رادھا کشن کے "غیور" مسلمانوں نے ایک مشتعل ہجوم کی صورت اختیار نہیں کر لی۔ اس مشتعل ہجوم نے دونوں بدنصیبوں پر تشد د کیا اور پھر ان کے ادھ موئے جسموں کو اسی بھٹی میں جلا کر خاک کر دیا جہاں وہ اپنی غلامی کے ہاتھوں پہلے ہی کئی سالوں سے جل رہے تھے۔  

ان مظلوموں کا قصور  یہ نہیں تھا کہ وہ عیسائی تھے، نا ہی انہوں نے توہین ِ مذہب کا ارتکاب کیا   جیسا کہ ان پرجھوٹا الزام لگایا گیا ۔ ان کا قصور صرف ایک تھا کہ وہ ایسے معاشرے میں زندہ تھے جہاں عزت کا پیمانہ صرف معاشی لکیروں کو ماپتا ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ ان کی جگہ اگر کوئی مسلمان جوڑا بھی ہوتا  تو اس کا بھی یہی حشر ہوتا  ، فرق صرف اتنا ہوتا کہ اس صورت میں شائد کسی دوسرے راستے کا انتخاب کیا جاتا۔ کوئی پنچائیت، کوئی جرگہ، کوئی گاؤں کا سردار یا  وڈیرہ انہیں ان دیکھے  جرم کا مجرم ثابت کرتا اور ہم کسی مختلف سانحے کی خبریں اخباروں اور ٹی وی میں  پڑھتے  اور دیکھتے۔  میں مزید کیا لکھوں کہ میرا دل زمین الٹائے جانے کے خوف سے کانپتا ہے اور میری روح ایسے معاشرے میں جینے سے بیزار ہوچکی ہےجہاں انسانی زندگی کسی بھی شخص کی طرف سے لگائے گئے اندھے الزاموں پر پلک جھپکتے  میں سانسوں سے محروم ہو جاتی ہے۔  اب بھی ہم اخبار ، ٹی وی، انٹرنیٹ پر دیکھتے ہیں تو  ایک دانشور وں کا طبقہ اپنے دل کی بھڑاس توہین رسالت اور توہین ِ مذہب کے قانونی  سقم پر موشگافیاں کر کے نکالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ جبکہ ایک اور طبقہ اسے پاکستانی معاشرے میں موجود مذہبی انتہا پسندی  کے رنگ کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ یہ دونوں باتیں شائد صحیح ہوں، مگر جو بنیادی وجوہات ہے ان کی طرف کسی نے کوئی اشارہ  نہیں کیا اور نا ہی اسے سدھارنے یا تبدیل کرنے پر کوئی مشورہ میری نظروں سے گزرا ہے۔ مظلوموں کے لواحقین کو ضرور زرعی اراضی اور پچاس لاکھ روپے دیے گئے ہیں مگر یہ نہیں سوچا گیا کہ مستقبل کے کسی مظلوم کو  ہم کیسے اس ظلم کا نشانہ بنانے سے روک سکتے ہیں۔ کیا پنجاب اور سندھ میں ایسےکئی خرکار اور بے گار کیمپوں سے بھی بدتر بھٹے اور کھیت موجود نہیں ہیں؟  اگر ہیں تو کیا ہم نے ان کے لیے کوئی قوانین وضع کیے ہیں؟ اور اگر قوانین موجو د ہیں  (جو کہ بیشک موجود  ہوں گے) تو ا ن پر عمل درآمد کرنے کی ذمہ داری کس مائی کے لعل کی ہے؟ اور وہ مائی کا لعل ایسے واقعات کے دوران کہاں سو رہا ہوتا ہے؟ کیا ہمارے معاشرے میں موجود لوگوں میں اتنی تعلیم، عزتِ نفس اور اخلاقی جرات پائی جاتی ہے کہ وہ اپنے اردگرد ہونے والے ایسے واقعات کو رونما ہونے سے روکنے کی کوئی کوشش کر سکیں؟  اور ایسے مواقع پر قانون کو اپنا راستا خود بنانے پر ترجیح دیں؟اگر ان سب سوالوں کا جواب نہیں ہے تو پھر  ہمیں اپنے ہر سال کے بجٹ میں ایسے کئی واقعات کے لیے کروڑوں روپے مختص کر نے پڑیں گے۔ کیونکہ یہ واقعات  وزراءاعلیٰ کے نوٹس لینے، اعلیٰ افسران کو معطل کرنے، ملزمان کو گرفتار کرنے، اور ان پر مقدمہ درج کرا دینے اور کچھ مہینوں بعد ان سب کو طاقِ نسیاں پر رکھ دینے سے بالکل بھی کم نہیں ہوں گے۔

میرا خیال تھا کہ پاکستان نے ترقی کی بہت سے منازل طے کی ہیں مگر یہ میری خام خیالی ہے ۔ صرف سڑکوں ، عمارتوں، پلوں اور چمکتی دمکتی سواریوں کا نام تو پاکستان نہیں ہے۔ یہ تو ایک قوم کا سوال ۔ ایک ایسی قوم کا جس کا ایک بہت بڑا حصہ انسانی فطرت کی سب سے اہم ضرورت سے محروم ہے۔ یہ ضرورت  روٹی، کپڑا اور مکان نہیں ہے۔ یہ بجلی ، گیس اور پانی بھی نہیں ہے، یہ کسی صورت روزگار اور معیشت کے آسان مواقع بھی نہیں ہے یہ دولفظوں پر مشتمل ایک ایسا احساس ہے جس سے ہم سب محروم کیے جاتے ہیں ۔ یہ  عزتِ نفس ہے!  عزت نفس سے لیس انسان باقی تمام ضروریات کو پورا کرنے کے جذبے سے بھرپور ہو گا۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستانی معاشرے میں انسان کی تکریم  کا سب سے بڑا پیمانہ اس کی معاشی  حالت ہے۔  

میں نے توہین ِ  مذہب اور توہینِ رسالت کے قوانین کا مطالعہ نہیں کیا اور نا ہی میں ان میں موجود کسی سقم کی نشاندہی کرنے کی صلاحیت اور اہلیت رکھتا ہوں۔ لیکن بہ حیثیت انسان جب میں دیکھتا ہوں کہ  کیسے ہمارے معاشرے میں موجود لوگ ایک قانون کے موجود ہوتے ہوئے کسی بھی معصوم اور بے گناہ انسان  کی جان سے کھیل جاتے ہیں تو میں ہر ذی شعور انسان کی طرح  سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ یقیناَ  اس قانون کےعلاوہ بھی کئی دوسری وجوہات ہیں جو ہمیں اسفل سافلین بنا دیتی ہیں ۔  وہ وجوہات کیا  ہیں یہ تو کسی گہرے نفسیاتی و معاشرتی مطالعے  کا متقاضی ہے ۔مگر ان سب کے علاوہ جو بات سب سے واضح ، یقینی  اور صاف ہے وہ ہماری معاشرتی تقسیم ہے۔ ہمارا معاشرہ دو  واضح طبقات میں بٹ گیا ہے۔ امیر وطاقتور اور غریب وکمزور۔دونوں طبقات میں جس کی جتنی بساط ہے وہ اس حیثیت میں ملکی قوانین  کا مذاق اڑاتا ہے۔  اگر میں ٹریفک سگنل توڑ نے پر بچ نکلنے کی اہلیت رکھتا ہوں تو میں ٹریفک سگنل کی خلاف ورزی ضرور کروں گا۔ اگر میں ٹیکس چوری کی سزا سے بچنے کے تمام راستے جانتا ہوں تو میں ٹیکس ضرور چوری کروں گا۔ اگر میں کسی مظلوم نوجوان کے قتل میں ماخوذ ہوں  اور مجھے یہ یقین ہو کہ میرا طاقتور خاندان مظلوم و مقتول  خاندان کے لواحقین کا جینا دوبھر کرنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے تو میں عدالت سے سزا ملنے کے باوجود انگلیوں سے فتح کا نشان ضرور بناؤ ں گا۔ کیونکہ میں جانتا ہوں کہ میرا خاندان   مقتول کے ورثاء کو نسلی دشمنی  اور مزید لاشوں سے ڈرا نے دھمکا  نے کے بعد  خون بہا اور دیت کے قانون پر عمل کرنے پر مجبور کردے گا۔ اگر اس ملک میں کچھ بھی نہیں ہو تا مگر قانون کی حاکمیت اور بالادستی ہو  تی تو کیا کوئی بھی شخص ایسے گھناؤنے جرائم    کا ارتکاب  کرنے کے بارے میں سوچ بھی سکتا تھا؟   شائد نہیں! کہ جس معاشرے  میں امیر   اور غریب  قانون کی نظروں میں برابر ہوں وہاں کا غریب بھی عزتِ نفس کی دولت سے مالا مال ہوتا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے بہت عرصے پہلے ہمیں سمجھا دیا تھا  کہ "تم سے پہلے کی امتیں اس لیے برباد ہوگئیں کہ وہ اپنے طاقتور اور امیر افراد کے جرائم کو نظر انداز کردیتی تھیں اور اپنے کمزور و غریب افراد کو سزا دیتے تھے"(مفہوم)   ۔ 

واہگہ بارڈر کے واقعہ کے بعد میرے ایک عزیز دوست نے وہاں جا کر شہیدوں کے لیے دعا اور خراجِ عقیدت پیش کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تو میں نے اس کے خیال سےمکمل اتفاق کیا ۔ مگر میں اسے یہ نہیں بتا سکا کہ میں چاہنے کے باوجود سیالکوٹ کے دو مظلوم  بھائیوں کے والدین سے رابطے کی ہمت پیدا نہیں کر پایا جنہیں کوٹ رادھا کشن جیسے ہی مشتعل درندوں کے ہجوم نے  2010 کے رمضان میں شہید کر دیا تھا۔ کئی برس گزرنے کے باوجود سیالکوٹ کے ان دو بھائیوں پر تشدد کی وڈیو کو ایک نظر سے زیادہ نہیں دیکھ پایا ۔  جب بھی میں اپنے خاندان اور دوست احباب کے مرحومین کے لیے دعا  ئے مغفرت کرتا  ہوں تو منیب اور مغیث کا نام خود بہ خود میری زبان پر آجاتا ہے۔ ہم بھلے ساری زندگی معصوم ، مظلوم اور مجبور لوگوں کے لیے دعا کریں ، یہ بات طے ہے کہ قانون پر سختی سے عمل درآمد ہونے تک ایسے مظلومین کی تعداد بڑھتی ہی رہے گی۔

No comments:

Post a Comment