Sunday 18 May 2014

ضمیر اور قومی احساس

جیو اور اے آر وائی کی جنگ میں  ہمارا ضمیر اور قومی احساس تباہ ہور ہا ہے۔ لیکن کسی کو بھی کوئی پروا نہیں ہے۔ دونوں طرف سے الزامات کی بوچھاڑ ہے اور دونوں طرف علماء کرام اپنا وزن ڈال کر پلڑا بھاری کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ نہایت احترام کے ساتھ عرض ہے کہ یہ صرف چندعلماء کرام کا وطیرہ نہیں ہے۔ پوری قوم من جملہ میڈیا اداروں کے، اسی رویے پر عمل پیرا ہے۔ ڈان، ایکسپریس، جنگ، نوائے وقت، دنیا، اور دی نیوز کونسا ادارہ ایسا ہے جو اپنے مخالفین کی بھد اڑانے کے لیے بھاڑے کے ٹٹوؤں کو اپنے ادارے میں شامل نہیں کرتا۔ ہر ادارے کے اپنے پسندیدہ نظریات وافکار ہیں اور وہ دن رات اس کے پرچار میں اور اپنے مخالفین کا تیا پانچہ کرنے پر تلے رہتے ہیں۔ یہ پہلی دفعہ ہوا کہ اپنا ہی ہتھیار خود اپنے خلاف استعمال ہوگیا ہے تو چیخیں نکل رہی ہیں۔ ایک طرف سے آزادیِ اظہار رائے پر ضرب لگانے کے دعوے کیے جارہے ہیں تو دوسری جانب سے پیشہ ورانہ ذمہ داری میں غفلت برتنے کا الزام کا ورد کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ بہتی گنگا میں سب نے ہاتھ دھوئے ہیں۔ نا جیو اتنا سیدھا ہے نا اے آر وائی، ونوں کو اپنے مفادات عزیز ہیں جن میں سب سے اول درجہ پیسے کا ہے۔ رمضان کی آمد آمد ہے، دونوں ادارے اسلام اور رمضان کے نام پر اپنے صارفین کو عامر لیاقت اور شائستہ واحدی جیسے "مبلغین اسلام" کے ذریعے اسلامی تعلیمات سے روشناس کروائیں گے۔ بکےگا تو صرف ضمیر، موت ہو گی توفرض شناسی کی، اور بے وقوف بنے گی تو یہ بیس کروڑ عوام جو سحروافطار کے دوران انہی لوگوں کے ارشادات عقیدت مندی سے دیکھ رہے ہوں گے۔ جو بکتا ہے بیچ دو، جو نہیں بکتا اسے پھینک دو۔ جہاں سے ملتا ہے لے لو۔ کہاں، کیوں اور کیسے کے سوالات چھوڑ دو۔

No comments:

Post a Comment