Monday 20 October 2014

پبلشروں کےنخرے

جیسا کہ پچھلی پوسٹ میں ذکر ہوا تھا کہ سفرنامے کی تکمیل کے بعد اس کی اشاعت کے لیے کوشش کی جائے گی اور اس سلسلے میں پاکستان کے تین بڑے اشاعتی اداروں سے رابطے کی مہم کا آغاز کیا جائے گا۔دو ہفتوں کی کوششوں کے بعد مجھے ایک حوصلہ شکن  صورتحال کا سامنا ہے ۔ ان دو ہفتوں کے دوران میں نے انٹرنیٹ، کتابوں اور معلوماتی کتا بچوں سے پاکستان کے تین بڑے اشاعتی اداروں کا  ٹیلیفون نمبر نکالا اور ان سے رابطے کی کوششیں کیں۔  یہ تین ادارے سنگِ میل پبلیکیشنز ،   جہانگیر بک ڈپو پبلشرز،  اور  دوست پبلیکیشنز  تھے۔

سب سے پہلے سنگِ میل سے رابطہ کیا ، کیونکہ مستنصر حسین تارڑ صاحب کی تقریباَ ساری کتابیں اسی ادارے نے چھاپیں اور تقسیم کی ہیں ۔ کیونکہ میں مستنصرحسین تارڑ کا بہت بڑا مداح ہوں اس لیے میں چاہتا تھا کہ میرا سفر نامہ بھی سنگِ میل سے چھپے۔ مگر یہ خواہش رکھتے ہوئے میں بھول گیا کہ میں ایک نوآموز لکھاری ہوں جس کو ادب کی دنیا میں کوئی بھی نہیں جانتا۔ سنگ ِ میل کے ارشد صاحب نے نہایت سکون سے میرا  تعارف سنا اور برداشت کیا لیکن نہایت ہی شائستہ لہجے میں بتایا کہ ادارہ ابھی صرف اپنی پہلے سے شائع کی ہوئی کتابوں کو ہی چھاپنے کا ارادہ رکھتا ہے اور نئی تصانیف کی چھپائی کا کام نہیں کیا جا رہا۔ میں نے ان سے کتاب کا مسودہ ایک بار پڑھنے کی درخواست کی ، مگر انہوں نے معذرت کر لی۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ اگر میں کوئی مشہور و معروف مصنف ہوتا تو مجھے کسی بھی قسم کی تفصیل میں جائے بغیر کتاب کا مسودہ بھیجنے کی ہدایت ملتی۔ اس بات میں تو خیر کوئی مضائقہ نہیں کہ وہ کسی بھی نوآموز ادیب کی کتاب کو چھاپنے یا نا چھاپنے کا فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ کوئی بھی اشاعتی ادارہ کسی بھی نوآموز لکھاری کی تصنیف کو رد کرنے کا اختیار رکھتا ہے، مگر اس کے ساتھ ہی ساتھ انہیں مسودے پر ایک نظر ڈالنے کی کوشش ضرور کرنی چاہیئے۔

سنگِ میل سے مایوس کن ابتداء ہونے کے بعد میں نے دوسرا رابطہ جہانگیر بک ڈپو پریس سے کیا۔ وہاں میرا رابطہ  ان کے ڈائریکٹر جناب فواز نیاز صاحب سے ہوا جنہوں نے مجھے نہایت پرسکون لہجے میں کہا کہ ادارہ نئے ادیبوں کی کتاب  چھاپنے کا خود تو کوئی خطرہ مول نہیں لیتا، مگرنوآموز لکھاریوں  کے خرچے پر ان کی کتاب ضرور چھاپ دیتا ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے  مجھے منافع کی شرح بھی  بتائی  کہ اگر فرض کیا جائے کہ ستر ہزار کی لاگت سے کتابیں  چھپوائیں جائیں اور وہ ساری بک جائیں تو ادیب کو منافع کی مد میں تقریباَ دس ہزار کی رقم حاصل ہوسکتی ہے۔ اتنا بتانے کے بعد انہوں نے مجھے کہا کہ میں مزید بات فون پر نہیں کر سکتا ، آپ مجھے ای-میل میں تمام تفصیلات لکھ بھیجیں۔ میں انہیں ای–میل  میں بتایا کہ اس خاکسار کے پاس تو ستر ہزار نہیں ہیں، ہاں مسودہ ضرور ہے۔ وہ دن اور آج کا دن انہوں نے میری مسودے کے ساتھ بھیجی ہوئی ای-میل کا اخلاقی جواب (ہاں یا ناں)دینے کی زحمت بھی نہیں کی۔

تیسری کوشش  دوست پبلیکشنز  کے سلسلے میں تھی۔ انہوں نے تہیہ کیا ہوا تھا کہ کہیں سے کی گئی کسی کال کا  کوئی جواب نہیں دینا۔ دو نمبر تھے، مسلسل بجتے تھے اور بغیر کسی جواب یا انتبا ہ کے بند ہوجاتے تھے۔کئی دنوں کی کوشش کے بعد ان کا ایک تیسرا نمبر ان کی چھاپی ہوئی کتابوں میں ملا، جہاں سے کسی صاحب نے جواب دیا۔ ان کا جواب تھا کہ ہم آج کل کوئی کتاب نہیں چھاپ رہے، اب واللہ واعلم اگر ایک اشاعتی ادارہ کتابیں نہیں چھاپ رہا توپتا نہیں اور کیا چھاپ رہا ہے۔ ہو سکتا ہے حکومتِ پاکستان نے انہیں دارالحکومت میں ہونے کے سبب نوٹ چھاپنے کا ٹھیکہ دے دیا ہو۔

خیر قصہ مختصر کہ تینوں بڑے اداروں سے ناکامی کا مزا چکھنے کے بعد ہم کچھ دن تو گردن ڈال کر بیٹھے رہے، مگر پھر نئے عزم اور ولولے کے ساتھ کچھ مزید پبلشروں کے نام پتے اور رابطہ نمبر دریافت کرنے کی مہم شروع کی ہے۔ اس سلسلے میں کچھ مزید نئی دریافتیں سامنے آنے کی امید ہے۔
ابتداء عشق ہے روتا ہے کیا
آگے اگے دیکھئے ہوتا ہے کیا

No comments:

Post a Comment