Thursday 2 October 2014

سفر نامہ کی تکمیل

کل رات  چار بجے میری زندگی کا اہم وقت تھا ، کیونکہ اس لمحے میں نے اپنی ادبی زندگی کی پہلی کتاب مکمل کی ہے۔ یہ کتاب دراصل ایک سفر کی روداد ہے جو شائد کسی پبلشر کی نظرِ کرم کی بدولت چھپ بھی جائے۔ مگر میرے لیے جو بات سب   سے اہم اور خوشی کا باعث ہے وہ اس کتاب کی تکمیل ہے۔

نوکری کے ساتھ ساتھ زندگی بہت مصروف تھی، لیکن اتنی بھی نہیں کہ میں اس کتاب کو مکمل نا کرسکتا۔ لیکن میری سستی اور کاہلی نے اس کتاب کو اگست 2014 تک صرف دو ابواب تک ہی محدود رکھا۔ لیکن ستمبر شروع ہوتے ہی مجھے احساسِ زیاں  نے اتنا شرمندہ کر دیا  کہ میں نے اسی مہینے میں اس سفرنامے کو مکمل کرنے کی ٹھانی اور اس کے لیے باقاعدہ دنوں اور لکھے جانے والے لفظوں کی تقسیم طے کر دی۔

ستمبر کے پہلے ہفتے  کے دوران میں نے تقریباَ ایک ہزار لفظ روزانہ کی بنیاد پر لکھناشروع کیا  اور دوسرے ہفتے تک یہ گنتی تین ہزار لفظ روزانہ تک پہنچ گئی۔ اس رفتار سے کتاب اپنی تکمیل کی طرف بڑھتی جا رہی تھی۔ مگر آثار سے یہ لگتا تھا کہ کتاب شائد ستمبر کے بعد بھی چلتی رہے گی۔ یہ ایک تکلیف دہ صورتحال تھی کیونکہ میں نے خود اپنے لیے اس تاریخ         کا تعین کیا تھا۔ مجھے یہ احساس بھی ہوا کہ اگر میں کتاب کو ستمبر میں کی جانے والی محنت اور توجہ سے لکھتا تو شائد پچھلے سال دسمبر میں ہی یہ کتاب مکمل ہو جاتی۔ لیکن خیر دیر آید درست آید کے مصداق میں نے شکر ادا کیا کہ کتاب  کے مکمل ہونے کی کوئی صورت تو نظر آرہی ہے۔

ستمبر کے آخری ہفتے میں لفظوں کی تعداد چھے ہزار لفظ روزانہ تک جا پہنچی اور اس کے باوجود یہ دوڑ لگی ہوئی تھی کہ پہلے ستمبر ختم ہوتا ہے یا میری کتاب۔ آخری تین دنوں میں تو یہ حال تھا کہ میں نے دفتر سے گھر آنے کے بعد تمام وہ چیزیں اور عوامل جو میری توجہ میں رکاوٹ کا سبب بنتے تھے، ان کو  بند کر دیتا تھا اور پوری یکسوئی سے لکھنے کی کوشش کرتا تھا۔  میں نے کتاب شروع کرنے سے پہلے اسے چھ عنوانوں (یا باب) کے تحت تقسیم کر دیا تھا۔ ان چھ ابواب کو مزید ذیلی عنوانوں کے ذریعے تقسیم کر دیا تھا جس سے مجھے اس کتاب کو مکمل کرنے  میں نہایت آسانی ہوئی۔ اس تقسیم سے مجھے یہ اندازہ ہوا کہ کون سا عنوان کس تفصیل اور کتنی طوالت کا متقاضی ہے اور میں کیسے اسے بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔

بدقسمتی سےستمبر کے آخری دن میں چند  آخری  ذیلی عنوان پورے نہیں کر سکا، جنہیں میں نے اگلے دن یعنی پہلی اکتوبر کی رات کو مکمل کیا۔ اس احساس کو لفظوں میں بیان کرنا ایک مشکل امر ہے کہ پہلی کتاب کی تکمیل پر میں نے کیا محسوس کیا، لیکن میں اپنے احساسات و جذبات پر قابو نہیں رکھ سکا اور میری آنکھیں خوشی اورشکر کے آنسوؤں سے بھیگ گئیں۔ میں نے دو رکعت نفل نماز بطور شکرانہ اللہ کے حضور ادا کیے ۔ اللہ کا بے حد شکر ہے کہ اس نے مجھے توفیق دی کہ میں اپنی تمام تر سستی اور کاہلی سے لڑکر اس کتاب کو مکمل کروں۔

کتاب کی تکمیل کے بعد ایک اور مشکل مرحلہ درپیش ہے جس میں کسی پبلشر کو راضی کرنا ہے کہ وہ اس کتاب کو اچھے طریقے سے چھاپے اور تقسیم کرے۔ مجھے اس بارے میں ابھی زیادہ معلومات نہیں ہیں ۔ پاکستان میں اردو کتابیں چھاپنے والے تین بڑے اشاعتی اداروں سے رابطہ کرنے کی کوششوں کا آغاز انشاءاللہ کل سے ہو گا۔ مجھے امید ہے کہ یہ ادارے ایک نوآموز لکھاری کی تصنیف کو چھاپنے اور تقسیم کرنے پر غور کریں گے۔

No comments:

Post a Comment