Tuesday 5 August 2014

ایک کتاب لکھنے کی روداد

اگرچہ میں پچھلے چھ (6) سالوں سے ایک عدد ناول لکھنے کی کوشش کر رہا ہوں جس کا فی الحال کوئی ایک سرا بھی میری گرفت میں نہیں ہے، مگر یہ ایک ٹیس کی مانند میرے ذہن کی غلام گردشوں میں گھومتا رہتا ہے۔ مگر یہ روداد اس ناول کے بارے میں نہیں ہے ۔ یہ ذکر ہے اس سفر نامے کا جو پچھلے سال ستمبر میں شروع کیا گیا تھا۔ اس سفر نامے میں کئی شہروں کی کہانیاں شامل ہیں۔ مگر اصل منزل نانگا پربت کے دامن میں واقع چھوٹی سی وادی تھی  جو فیئری میڈوز کے نام سے مشہور ہے۔

یہ سفر نامہ جب شروع کیا گیا تو میرے ذہن میں پہلی دفعہ ایک واضح ڈیڈلائن تھی ، کیونکہ میں جانتا تھا کہ ایک کہانی کی نسبت اس کتا ب کے تمام سرے میرے سامنے واضح اور صاف ہیں۔ کہانی کی تشکیل کے دوران جنم لینے والی کوئی بھی مشکل اس سفرنامے میں بہ ظاہر موجود نہیں تھی۔ کردار کی تشکیل، کہانی میں کوئی ابہام، مصنف کی ذہنی رو، اور پلاٹ میں کسی نئے موڑ کی دریافت جیسی تمام مشکلات کا اس کتاب سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں تھا۔ میرا خیال تھا کہ میں تین مہینوں میں ہزار لفظ روزانہ کی بنیاد پر اس سفرنامے کو مکمل کر سکتا ہوں۔ مگر یہ بھی ایک خام خیال تھا، کیونکہ میں نے جب لکھنا شروع کیا تو کئی زاویے جو میری نظروں سے اوجھل تھے ایک دم ابھر کر سامنے آگئے۔

کسی مقام کا ذکر رومانوی لکھاریوں کی طرح کرنا ہے یا ایک حقیقت پسند کی نظروں نے جو دیکھا اسے بیان کرنا ہے؟  تاریخ، جغرافیہ، اور معاشرت کا ذکر کتنا ، کہاں اور کیسے ہو؟ جملوں کا استعمال کیسا ہو؟ گفتگو کی صورت بیان کیا جائے تو کہیں پوری کتاب لفاظی کا شکار ہو کر پھکڑپن کا ایک نادر نمونہ نا بن جائے  اور زیادہ تاریخی بیانات اور واقعات اس سفر نامے کو ایک بوجھل تاریخ کی کتاب نا بنا دیں۔

یہ وہ کچھ خیالات ہیں جو اس کتاب کو لکھتے ہوئے میرے ذہن میں آتے ہیں۔ پانچ ابواب پر مشتمل اس کتاب کے تین باب تقریباََ  مکمل  ہوچکے ہیں اور چوتھے باب کی جانب رواں دواں ہوتے ہوئے اکثر میں جب پہلے تین ابواب پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے یہ تینوں ابواب الگ رنگوں میں لکھے نظر آتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ بہ ظاہر یہ ہے کہ مجھے ان تین ابواب کو لکھتے ہوئے گیارہ مہینوں کا عرصہ گزر گیا ہے اور جو تین مہینوں کا تخمینہ میں نے اس کتاب کی تکمیل کے لیے لگایا تھا وہ میری سستی و کاہلی کی وجہ سے اتنے لمبے عرصے پر محیط ہو گیا ہے۔ یہ کسی بھی طرح ایک اطمینان بخش صورتِ حال نہیں ہے۔

یہ کتاب کب مکمل ہوگی یہ تو شائد خدا کو ہی معلوم ہے، مگر اس کتاب کو لکھنے کے دوران مجھ پر یہ حقیقت کھلی ہے کہ فرضی کہانیوں کی تشکیل اور کسی حقیقی روداد کو تحریر کرنا دو مختلف باتیں ہیں۔ اسی لیے دونوں سے نبر د آزما ہونے کے لیے ایک لکھاری کو مختلف رویہ اور طریقہ اختیار کرنا نہایت ضروری ہے۔ یہ روداد چونکہ ابھی جاری وساری ہے اور مستقبلِ قریب میں اس کے ختم ہونے کی بہ ظاہر کوئی صورت نظر نہیں آتی، اسی لیے میں کوشش کروں گا کہ اس دوران پیش آنے والی صورتحال کو یہاں بیان کرسکوں تاکہ دوسرے لکھاریوں کا کچھ بھلا ہوسکے۔آپ کی رائے اس ضمن میں نہایت کارآمدہوسکتی ہے اس لیے اپنی رائے کے لیے نیچے کمنٹ ضرور کریں۔

No comments:

Post a Comment