Tuesday 4 March 2014

پاگل پن کا دور

پاگل پن کا دور ایک ایسا دور ہے جو افراد یا معاشرے پر وارد ہو جاتا ہے۔ اس دور میں فردِ واحد اور ان کا ہجوم ردعمل کا شکار ہو جاتے ہیں۔ کوئی بھی واقعہ، بات، یا عمل پر اندھا دھند بنا سوچے سمجھے ردعمل دکھانے کا شکارہو جاتے ہیں۔ دو افراد کی گاڑیاں ٹکرا جانے سے لے کر کسی قومی سانحے کے رونما ہونے پر افراد وہجوم کا رویہ ردعمل ہی ہوتا ہے۔ بجائے کسی سوچ کے زیرِ اثر اس واقعے یا سانحے کی وجوہات اور مستقبل میں ایسے کسی بھی واقعے کو رونما ہونے سے روکنے کے عمل کی بجائے فوری طور پر عبرت کا نمونہ بنانے پر زیادہ زور ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر حالیہ سے واقعے میں بہاولپور کے ایک غریب خاندان میں زیادتی کا شکار ہونے والی معصوم اور کمسن لڑکی نے جب تک خود سوزی نہیں کی، ہمارے حکمرانوں نے اس متاثرہ خاندان کو انصاف دلانے کےلیے کوئی کوشش نہیں کی۔ دوسری جانب سندھ کے ضلع لاڑکانہ میں قرآنِ پاک کی بے حرمتی کی افواہ (غیر تصدیق شدہ خبر) پر مشتعل افراد کے گروہ نے ایک مندرکو نذرِ آتش کر دیا۔ حسبِ توقع معاشرے کے ذمہ داران ( دانشور، صحافی، سیاست دان و حکمران) نے اخبارات، سوشل میڈیا پر مذمتی بیان جاری کر کے اپنا فرض پورا کر دیا۔ 

قصور شائد کسی کا بھی نہیں ہے اور شائد ہم سب کا ہے۔ ہم (عوام) جو عرصے سے خود پر حکومت کیے جانے کے عمل سے لاتعلق ہیں اس کا یہی نتیجہ نکلنا تھا۔ کوئی اگر دلچسپی لیتا بھی ہے تو اس کی دلچسپی اپنی مخصوص سوچ کی وجہ سے اپنی پسندیدہ سیاسی جماعت تک محدود رہتی ہے۔ اب وہ جماعت سیاہ کرے سفید کرے یا کچھ بھی نا کرے تب بھی اس فردِ واحد نے واہ واہ، سبحان اللہ، ماشاءاللہ، اور استغفراللہ کہنے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں کرنا۔ سیاسی جماعتوں کی تفریق کے بعد ہمارے پاس ہیں مذہبی اور سماجی درجہ بندی۔ مذہبی درجہ بندیوں میں تو فرقہ پرستی اور مسلک کی بنیاد پر ایسے دیرینہ جھگڑے ہیں کہ ان سے چھٹکارا بظاہر ناممکن نظر آتا ہے۔ دوسری جانب ہمارے پاس ایسی سماجی درجہ بندی ہے جس میں موجود دو-تین انتہائیں واضح طور سے نظرآتی ہیں۔ ایک طرف مقامی طور پر پڑھے لکھوں افراد کا ایسا ہجوم ہے جو اپنی خاندانی تربیت اور ملکی اداروں میں تعلیم پانے کے سبب ایک مخصوص سوچ کے حامل ہیں۔ ان کے نزدیک پاکستان کی مشکلات کاسبب سیاستدان، بیوروکریسی، فوج اور صحافی (بالترتیب) ہیں اور عوام مظلوم ترین طبقہ ہے۔ لیکن ایک بنیادی قومی تربیت کے فقدان کے سبب ہر اس جائز اور ناجائز طریقے کو ٹھیک سمجھتے ہیں جس میں ذاتی فائدہ سب سے زیادہ ہو۔  سگنل توڑنے، بجلی چوری کرنے،اور ناجائز تجاوزات سے لے کر ہر غلط کام کوٹھیک سمجھنا ان کی سوچ کا حصہ بن گیا ہے۔ ایک مزید غلط سوچ جس کا معاشرے کے اکثر افراد شکار ہیں وہ معاشی ترقی کی دوڑ میں اندھا دھند شامل ہونے کی وہ لگن ہے جس نے ہمیں بہ حیثیت انسان اور بہ حیثیت قوم ایک ایسے دوڑ میں شامل کر دیا ہے جس میں جیتنے کے لیے ہم کسی بھی کام کو کر گزرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ 

دوسری جانب مغربی اداروں سے تعلیم یافتہ افراد کو ایسا گروہ ہے جو مادر پدر آزاد معاشرہ چاہتا ہے، اس گروہ کے افراد آپ کو ٹوئیٹر اور انگریزی اخبارات میں لکھتے ہوئے کثرت سے نظر آئیں گے۔ پاکستان کی ہر مشکل کا سبب انہیں مذہب کے قریب ہونا دکھائی دیتا ہے۔ ان افراد میں بھی آپ کو ایسے افراد بکثرت مل جائیں گے جو آزادیِ اظہارِ رائے کے نام پر مذہب اور مسلمان معاشرے کی روایتوں کے خلاف زہر اگلتے ہوئے نظر آئیں گے اور ان کے نزدیک دوسرے کسی بھی شخص کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنی مرضی اور سمجھ کے مطابق اپنے معمولات پر عمل کرے۔ دین پر عمل کرنے والے ہر شخص کو بہ حقارت اور منہ تیڑھا کر کے "جاہل ملا" اور "ان پڑھ مولوی" کا خطاب دینا ان کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔

لبرل افراد کو مذہب کی جانب ایسا رویہ رکھنے کی ہمت ہمارے مذہب کی نمائندگی کرنے والے افراد نے دی ہے۔ جنہوں نے دینی تعلیم میں تحقیق و اجتہاد کا دروازہ ہی بند کر دیا ہے۔ ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگانے کی باعث انہوں نے ہر وہ دروازہ بند کر دیا ہے جس سے یک جہتی کا خیر نمودار ہو سکتا تھا۔ دوسری جانب دنیاوی علوم سے استعفادہ نا کرنے کی وجہ سے یہ افراد علمی و ذہنی سوالوں کا کوئی مدلل جواب دینے سے قاصر ہوتے ہیں اور لبرل افراد کی تضحیک و تشنیع کا شکار ہوتے ہیں۔

قصہ مختصر یہ ہے کہ ہم تمام افراد ایسے پاگل پن کا شکار ہیں جس میں ہر دوسرا شخص غلط اور ہم ٹھیک ہیں۔ اس کا علاج بظاہر تو نظر نہیں آتا کیونکہ جو کوئی اس رویے کو ٹھیک کرنے کی حیثیت میں ہے وہ خود اس مرض میں مبتلا ہے۔ 

No comments:

Post a Comment