Tuesday 12 November 2013

پاکستان کرکٹ

پاکستان کرکٹ اس وقت جس زوال کے دور سے گزر رہی ہے اس کی مثال ہمیں پاکستان کرکٹ کے ہر دور میں مل سکتی ہیں۔ لیکن موجودہ شکست عبرتناک ہونے کے ساتھ ساتھ ایک خطرناک رویے کی نشاندہی بھی کرتی ہے۔ وہ رویہ ہے ہر ادارے کو جیسا تیسا چلانے کا رواج۔یہ رواج یوں تو پاکستان کے ہر ادارے میں آپ کو بدرجہ اتم ملے گا  مگر پاکستان کرکٹ کو دیکھ کر آپ رونے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ماضیِ قریب (2000-2010) کے عظیم کھلاڑی وسیم اکرم، وقار یونس، ثقلین مشتاق، مشتاق احمد، انضمام الحق اور ان جیسے کئی دوسرے کھلاڑی جو پاکستان کرکٹ کواس صورتحال سے نکلنے میں مدد دے سکتے ہیں یا تو بیرونِ ملک دوسروں ممالک کی کرکٹ سدھارنے میں مدد دے رہے ہیں یا کرکٹ کے کھیل پر ماہرانہ تبصرے کر رہے ہیں۔ ادھر ہم ابھی تک سن 1960 اور 1970میں کھیلنے والے کھلاڑیوں پر مشتمل بورڈ کو بھگت رہے ہیں۔

پاکستان کے پاس موجود بے تحاشا ٹیلنٹ کے گن تو گائے جاتے ہیں لیکن یہی ٹیلنٹ عالمی سطح کے کھلاڑیوں کے مقابلے میں اوسط درجے کی کارکردگی بھی نہیں دکھا پاتا جس کی وجہ سے کھلاڑی کی قدرتی صلاحیتیں اور خود اعتمادی کو شدید ٹھیس پہنچتی ہے اور یا تو وہ ہمیشہ کے لیے منظرسے غائب ہو جاتا ہے یا پھر کارکردگی میں تسلسل نہیں رکھ سکتا۔اس رجحان کا ذمہ دار کون ہے؟ کوچ؟ سلیکٹرز؟ کپتان؟ بورڈ کے سربراہان؟ ٹیم کو دیکھ کر لگتا ہے کوئی بھی کھلاڑی جیتنے کی خواہش سے نہیں کھیل رہا بلکہ اپنی جگہ بچانے یا مستقل کرنے کے لیے کھیل رہا ہے۔

ایک تیزی سے بڑھتا ہوا خطرناک رجحان عوام کی کرکٹ میں کم ہوتی دلچسپی بھی ہے۔پاکستان میں بین الاقوامی مقابلوں سے محرومی، شہری اور صوبائی سطح پرکرکٹ کے اچھے مقابلوں کا فقدان اور عوام کی ان میں غیر دلچسپی اہم عنصر ہیں اور کرکٹ کے عالمی سطح پر روشن و مشہور ستاروں کی شدید کمی ہے۔ بہ قول عمران خان کسی بھی شہری کو نیشنل بینک بہ مقابلہ سوئی سدرن گیس کمپنی کے مقابلوں میں کیا دلچسپی ہو گی؟ یہ بات سچ ہے کہ اداروں نے فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلنے والے کھلاڑیوں کو کسی حد تک معاشی فکروں سے آزادی دی ہے لیکن دوسری طرف ان مقابلوں میں عوام کی عدم دلچسپی بہت افسوسناک عمل ہے۔  کرکٹ کھیلنے والے کسی بھی دوسرے ملک کے عوام وہاں ہونے والے ڈومیسٹک کرکٹ سے اتنے لاتعلق نہیں ہوتے جتنی ہمارے ہاں ہونے والی "قائد اعظم ٹرافی" میں دیکھی جا سکتی ہے۔ کیا آپ کو پتا ہے کہ اس وقت پاکستان کی کون سی فرسٹ کلاس ٹیم ڈومیسٹک سیزن میں باقی ٹیموں سے آگے ہے اور پچھلے سال کے ڈومیسٹک سیزن کی فاتح ٹیم کونسی ہے؟ اور اس سال کے لیے کس ٹیم کو یہ سیزن جیتنے کے لیے پسندیدہ قرار دیا جا رہاہے؟ سچی بات ہے کہ یہ سب باتیں مجھے بھی نہیں پتا اور شائد ہی کسی اور کو پتا ہو۔ تو ایسے مقابلوں سے نکلنے والے کھلاڑی کو کیسے عالمی سطح کے مقابلوں کے لیے تیار کیا جاسکتا ہے جہاں ہر دوسرا کھلاڑی اپنی علاقائی ٹیم کے لیے سر دھڑ کی بازی لگانے کے بعد ہی اپنی قومی ٹیم کا حصہ بنا ہوتا ہے۔ 


پاکستان کرکٹ ایک ایسے دوراہے پر کھڑی ہے جہاں ہمارے پاس ایک واضح فیصلہ کرنے کے مواقع ہیں۔ کیونکہ ٹیم میں سٹار کھلاڑیوں کی شدید کمی ہے اور نوجوان کھلاڑیوں کے پاس کوئی ایسا رول ماڈل نہیں ہے جس نے ماضی میں پاکستانی ٹیم کے لیے مشکل حالات میں کامیابی کے ڈھیر لگائے ہوں۔ شاہد آفریدی، مصباح الحق اور یونس خان اپنی عالمی کرکٹ کی آخری حد پر ہیں اور کوئی نہیں جانتا کے آنے والے سال 2014 میں ان میں سے کس کا جسم اس قابل رہ سکے گا کہ وہ اپنی پرفارمنس کی بنیاد پر ٹیم میں جگہ قائم رکھ سکے۔ مصباح الحق، یونس خان اور شاہد آفریدی 2015 کا ورلڈ کپ کھیلنا چاہتے ہیں قطع نظر اس بات کے کیا وہ موجودہ انٹرنیشنل کرکٹ کے تقاضوں کو پورا کر سکتے ہیں دوسری طرف بورڈ کی ایسی پالیسیاں ہیں جو کسی بھی ایسے کھلاڑی کو منظر پر نہیں لا سکی جس سے ہم امید لگا سکیں کہ یہ مستقبل میں پاکستان کرکٹ کا بوجھ اٹھا سکتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment