Wednesday 6 November 2013

گزرتے دنوں کا ماتم

تو یہ پہلی کہانی ہے جو اس نئے زمانے میں لکھی جا رہی ہے۔گزرے زمانوں کی کہانیاں جب لوگ سچے اور مکان کچے ہوا کرتے تھے۔کیا آپ کو ایسی کہانیوں میں دلچسپی ہے؟ اگر ہے تو یہ جدید دور کا صفحہ آپ کے لیے ہے۔کہانی سننا ، پڑھنا، لکھنا اور کہنا ہمیشہ سے ایک دل پسند مشغلہ رہا ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں کہانیوں کی کتابیں شائع ہوتی ہیں اور پڑھی جاتی ہیں۔ آپ کی اپنی کہانی بھی ان کہانیوں میں کہیں درج ہوتی ہے کبھی آپ کا سامنا اپنی کہانی سے ہوا ہے؟ لکھی ہوئی کئی کہانیاں آپ کو اپنے اس دور کی یاد دلاتی ہیں جب آپ چھوٹے ہوتے تھے اور اپنے بڑوں کا سر کھایا کرتے تھے۔

یہ وہ دور نہیں ہے۔ بلکہ کوئی بھی دور وہ دور نہیں ہے سوائے اُس دور کے۔لیکن یہ بات تو آپ جانتے ہیں۔میں بھی جانتا ہوں تو کیوں مزید وقت برباد کیا جائے اور گزرے زمانوں کا رونا رویا جائے؟بس ایسے ہی یونہی کبھی کبھی دل کرتا ہے گزرے زمانوں کا ماتم کرنے کا ، رات کا یہ پہر بھی کچھ ایسا ہی ہے۔پڑھیں نا پڑھیں، کھیلیں نا کھیلیں، کھائیں نا کھائیں، کریں نا کریں کتنی آزمائشوں کے درمیان گزرتی ہے یہ زندگی۔

یہ سوال بھی کبھی خود سے کیا ہے کہ آپ اپنے لیے چاہتے کیا ہیں؟ یہ ایک سوچ  ہے ایک خیال ہے۔ اس سے کوئی نتیجہ اخذ نا کریں کچھ نا کریں اسے یونہی گزر جانے دیں جیسے اب تک کے روزوشب گزرے ہیں اس شب کو بھی اُن گزری ہوئی راتوں میں شمار کر لیں۔

No comments:

Post a Comment