Tuesday 16 June 2015

تخلیق کار بہ حیثیت انسان


کیا ایک تخلیق کار کو بہ حیثیت انسان  جانچے جانے سے استشناء ملنی چاہیئے؟
سعد انوار
تخلیق کار کا دکھ لکھتے ہوئے   میں نے یہ بتانے کی کوشش کی تھی  کہ ایک تخلیق کار کی دنیا ایک عام فرد سے تھوڑی مختلف ہوتی ہے۔ ایک شاعر، افسانہ نگار، موسیقار، گلوکار، ادیب ، مصور، اور ان جیسے کئی دیگر تخلیقی صلاحیتوں سے  معمور افراد حساس ہوتے ہیں اور جس کا پرتو ان کی تخلیقات میں جھلکتا ہے ۔ اپنی حساسیت کی بدولت تخلیق کار وں کو ہمیشہ ایک عجیب روحانی، جسمانی، اور ذہنی کیفیت میں سے گزرنا پڑتا ہے جو بعض دفعہ شدید اذیت کا باعث ہوتی ہیں۔  اسی لیے ہم ایسے کئی تخلیق کار وں کو جانتے ہیں جو خودکشی جیسے عمل سے گزرے۔ بہت سے تخلیق کار اپنے اسی ذہنی کرب و اذیت سے بچنے کے لیے نشہ آور اشیاء میں سکون ڈھونڈتے ہیں۔ یہ عمل ان کے اپنے اردگرد کے ماحول اور رویوں سے ذہنی فرار کی ایک کوشش ہوتی ہے۔ بہت سارے مشہور تخلیق کار کی اموات کی وجوہات میں نشہ آور اشیاء کا استعمال سرفہرست تھا۔ جیسا کہ سعادت حسن منٹو کا جگر ، شراب کے کثرت استعما ل سے خراب ہو گیا تھا۔ غیر ملکی تخلیق کاروں کی مثال کے لیے جم موریسن اور جمی ہینڈرکس (موسیقار)  دو مثالیں ہیں۔ خود کشی کا رجحان بھی بہت سارے تخلیق کاروں میں پایا  جاتا ہے۔  کر ٹ کوبین کی موت اس کی ایک بہترین مثال ہے۔

یہ مضمون لکھتے ہوئے مجھے ادب، ادیب اور معاشرہ  کے نام سے ایک مضمون پڑھنے کو ملا، جس میں ایک ادب اور ادیب کی بے وقعتی اور معاشرے کی دونوں سے بے حسی پر بات کی گئی تھی۔ مضمون میں جہاں اور کئی باتیں کی گئیں تھیں، وہیں سعادت حسن منٹو کے بعض افسانوں کا تذکرہ بھی کیا تھا ۔ مضمون نگار کا کہنا تھا کہ معاشرے کے ایسے حقائق کو افسانے کا موضوع بنانا جن پر بات کرنے سے عام افراد کتراتے ہوں، بعض لوگوں کے نزدیک فحاشی  پھیلانے کے زمرے میں آتا ہے۔  یہ ایک بحث طلب موضوع ہے، لیکن مجھے جس چیز نے چونکایا اور یہ مضمون لکھنے پر مجبور کیا وہ اس مضمون کے آخر میں موجود ایک تبصرہ تھا۔ تبصرے میں منٹو کی ہمسائیگی کا دعویٰ کرتے ہوئے لکھا تھا۔

"گستاخی ہو جانے کی پیشگی معافی مانگنے کے بعد عرض ہے ۔ ادیب ادب سکھاتا ہے اگر خود حدِ ادب سے آشنا ہو ۔ جیسے علامہ اقبال الطاف حسین حالی وغیرہ ۔ آپ نے مثال دی ہے سعادت حسن منٹو صاحب کی ۔ اور بتایا ہے کہ معاشرے کے افراد کے دل سے بھی واقف تھے جس سے اُنہوں نے پڑھنے والوں کو روشناس کرایا ۔ میں ایک بات جانتا ہوں کے ھدایت یا نصیحت یا سبق وہ اثر رکھتا ہے جسے دینے والا خود اس پر عمل کرتا ہو ۔ سعادت حسن منٹو صاحب کو اپنی بیوی کے دل کا حال معلوم ہونا تو بہت بڑی بات ہے اپنی بیوی کی ظاہری صورتِ حال سے بھی کبھی واقفیت نہ ہو سکی ورنہ وہ نان نفقہ کیلئے محلہ داروں اور سعادت صاحب کے دوستوں کی محتاج نہ ہوتیں ۔ معاف کیجئے گا ۔ سعادت صاحب راولپنڈی میں ہماری رہائشگاہ سے 500 گز کے فاصلہ پر رہتے تھے اور روزانہ اُن کے گھر کے سامنے سے گذر ہوتا تھا ۔ جب کبھی کسی کتاب کا مسؤدہ بِک جاتا تو جو پیسے ملتے شراب و کباب میں اُڑا دیتے ۔ گھر میں بیوی فاقے کرتیں۔ "

 منٹو کی شراب نوشی انہی کے افسانوں کی طرح مشہور اور معروف ہے ۔ یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ معاشرے کے مجبور و بے کس افراد کی زندگیوں  کو اپنے لکھے ہوئے لفظوں سے امر کردینے والا حساس اور باشعور  لکھاری  اپنی ذاتی ذمہ داریوں  سے کیسے اتنا لاپرواہ ہو سکتا ہے کہ  اس کے گھرو الوں  پر فاقہ کشی کی نوبت آجائے۔ یہ سوال مجھے تنگ کرتا ہے، کیوں کہ میں ایک تخلیق کار کے ذہنی کرب و اذیت سے تو واقف ہوں، لیکن کیا اپنی حساس طبع، نازک مزاج، شعلہ صفت شخصیت ، نفاست پسندی، اور اسی طرح کی دیگر صفات کو بہانہ بنا کر ایک شاعر، لکھاری، یا افسانہ نگار اپنی ذاتی اور گھریلو ذمہ داریوں سے فرار ہو سکتا ہے؟  اس کا جواب میرے پاس نہیں ہے۔

مالی حیثیت کا کلیہ اگر ہم شاعروں کی ذاتی زندگی  میں موجود غیر ذمہ داریو ں اور لاپرواہیوں پر لاگو کریں تو ہمیں یہ کیفیت ان تخلیق کاروں میں بھی نظر  آتی ہے  جن کی مالی حیثیت بہت مستحکم تھی۔ اگر ہم امریکہ کےمشہور گلوکار کر ٹ کوبین  کی مثال  کو سامنے رکھیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ اس کی خودکشی کسی بھی طرح مالی مشکلات کی وجہ سے نہیں تھی۔ وہ شدید ذہنی اذیت میں مبتلا ایک ایسا تخلیق کار تھا  جو اپنے ہونے کے جواز کو بار بار نہایت ہی شدت سے جھنجوڑتا تھا۔ اپنے خود کشی سے پہلے لکھے جانے والے خط میں اس نے لکھا ہے کہ اس کا دل موسیقی تخلیق کرنے اور ایسے کئی دوسرے کاموں سے بھر گیا ہے، جس سے پہلے وہ مسرت اور جینے کا جواز پاتا تھا۔

حرفِ آخر
یہ ایک بہت مشکل اور تفصیل طلب سوا ل ہے ۔کیا ایک تخلیق کار کی ذاتی اور انفرادی حیثیت کو اس کی تخلیقات سے الگ رکھنا ممکن ہے؟ کیا آپ اپنی رائے کے ذریعے میرے اس سوال کا جواب دے سکتے ہیں؟ اگر ہاں تو نیچے تبصرے  میں  اپنے خیالات کا اظہار کریں، یا اپنا جواب مجھے لکھ بھیجیں ، میں اسی بلاگ پر اسے آپ کےنام کے ساتھ شائع کردوں گا۔ 

اپنی رائے یہاں بھیجیں۔

No comments:

Post a Comment