Friday 12 June 2015

ایک مضمون بلا ل اور پاک اردو انسٹالر کی نذر

میں کوئی مفکر یا دانشورنہیں ہوں، بس ایک سیدھا سادھا لکھاری ہوں ، جسے لکھنے کا شوق ہے۔اردو میری مادری زبان ہے اور میں زیادہ تر اسی زبان میں طبع آزمائی کرتا ہوں۔ قسمت کی خوبی دیکھئے  کہ روزی روٹی کمانے کے لیے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے بہت سارے مشکل موضوعات پر انگریزی میں لکھنا پڑتا ہے ۔ 

لکھنے کے شوق کو پورا کرنے کے لیے پڑھنے  کا ذوق لازمی ہے۔ ہمارے گھر میں غیر نصابی کتابوں کی تعداد نصابی کتابوں سے ہمیشہ آگے رہی ہے۔ بچپن میں بچوں کے لیے مخصوص ماہنامہ جیسے ہمدرد نونہال، تعلیم و تربیت، ٹوٹ بٹوٹ، ساتھی، اور بچوں کی دنیا جیسے مشہور ومعروف رسالے ہمارے گھر میں باقاعدگی سے آتے تھے، ہمدرد نونہال  تو اب بھی آتا ہے ، حالانکہ فی الوقت کوئی نونہال  اس گھر میں موجود نہیں ہے۔ اس کے بعد ہم نے اپنے جیب خرچ سے چار آنے والی چھوٹی کہانیاں جو محلے کی لائبریری سے باآسانی مل جا تی تھیں ، خریدنی اور پڑھنا شروع کی، ہمارے دور کے بچوں کے لیے یہ ایک نہایت ہی  شاندار مشغلہ تھا ۔ پھر اشتیاق احمد، مظہر کلیم، ابنِ صفی، نسیم حجازی سے ہوتے ہوئے سنجیدہ اردو ادب کی طرف چلے گئے جس میں اشفاق احمد، ابنِ انشاء، قدرت اللہ شہاب  ، ممتاز مفتی، کرنل شفیق الرحمن، کرنل محمد خان، مستنصر حسین تارڑ، مشتاق احمد یوسفی ، شوکت صدیقی ، بانو قدسیہ، انتظار حسین، اور قرۃ العین حیدر اور کئی دیگرلکھاریوں کو پڑھا۔  کچھ سمجھ آیا اور بہت کچھ سر پر سے گزر گیا۔ مگر سفر آگے کی جانب چلتا گیااور الحمد اللہ اب تک جاری و ساری ہے۔

جہاں تک  لکھنے کا تعلق ہے تو جس گھر میں مطالعے کی فضا ایسی شاندار ہو، وہاں بہت سارے لکھاریوں کا ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ میرے گھر میں تقریباَ سب ہی افراد لکھنے کے مرض میں مبتلا ہیں۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ بچپن میں شوکیس کے اندر برتن کھنگالتے ہوئے مجھے کچھ حمد یہ اور نعتیہ کلام کے قلمی مسودات ملے تھے۔  یہ مسوادت میرے والد کے ہاتھ کے لکھے ہوئے تھے، جو یقیناَ انہوں نے ہماری پہنچ سے دور رکھنے کے لیے اس قدر احتیاط سے چھپائے تھے۔ ان کی وفات کو کچھ عرصہ ہی گزرا تھااور چونکہ میں بہت چھوٹا تھا اس لیے مجھے اس وقت ان مسوادت کی کچھ قدر نہیں ہوئی اور میں نے انہیں واپس رکھ دیا۔ پھر امتدادِ زمانہ کے ہاتھوں وہ مسوادات کہاں گئے ، کچھ پتا نہیں چلا۔ میری والدہ بھی ہم بچوں سے چھپا کر کچھ لکھتی ہیں، میر ا گمان ہے کہ وہ بھی شاعرہ ہیں۔ میر ی بڑی  بہن اگرچہ اب نہیں لکھتیں، مگر ہمدرد نونہال میں  ہمارے گھر کے کسی فرد کی سب سے پہلے شائع ہونے والی تحریر انہی کے ذہن کی تخلیق تھی۔  دو چھوٹی بہنیں اردو افسانے لکھنے کی ماہر ہیں، دونوں کے لکھے ہوئے کئی افسانے خواتین کے لیے نکالے جانے والے مشہور ڈائجسٹوں میں  چھپ چکے ہیں۔ ان میں سے ایک بہن شاعرہ بھی  ہیں۔ میرا  بھائی اگرچہ لکھنے کا اس قدر شوقین نہیں ہے، لیکن بچپن میں اس کی کہانی بھی ہمدرد نونہال میں چھپ چکی ہے۔

رہا یہ خاکسار، تو اس کو لکھنے کاشوق تو ضرور ہے ، مگر چھپوانے سے کبھی کوئی دلچسپی نہیں رہی۔  یاد اشت کے مطابق میری سب سے پہلی تحریر کلاس چہارم (چوتھی) میں ٹیپو سلطان پر لکھے جانے والا ایک مضمون تھا۔ اس کے بعد کئی مضمون لکھے ، کبھی سنبھال کے نہیں رکھے اور اس وقت کے سب تحاریر لاپرواہی کی بدولت ادھر ادھر ہوگئیں۔ شاعری میں طبع آزمائی پہلی دفع کلاس نہم میں کی، جب اسکول کی کینٹین میں بیٹھ کر ایک آزاد نظم  لکھی ، وہ نظم جانے کیسے محفوظ رہ گئی۔ طالب ِ علمی کے دور میں اپنی کوئی تحریرمیں نے کبھی کسی کو نہیں دکھائی، اس کی بہت ساری وجوہات میں سے ایک سب سے بڑی وجہ میری بدخطی تھی۔ کمپیوٹر تک رسائی توتھی، مگراس دور کے کمپیوٹر اردو زبان کے رسم الخظ سے ناآشنا تھے، یہ گوگل کے ابتدائی دور سے بھی کئی برسوں پہلے کی بات ہے۔ الحمداللہ اس وقت بھی ہم انگریزی میں ایسے فر فر ٹائپ   کرلیتے تھے جیسے آج کل کرتے  ہیں، مگر اردو لکھنے کے لیے قلم کا سہارا ہی لینا پڑتا تھا۔

بہرحال کہانی کو مختصر کرتے ہیں۔  اردو کی کمپیوٹر تک رسائی کے بعد بھی ایک طویل عرصہ ہم ان پیچ نامی سافٹ وئیر پر لکھتے رہے۔ اب جنہوں نے اسے استعمال کیا ہے وہ بہ خوبی جانتے ہیں کہ یہ ایک نہایت ہی مشکل سافٹ وئیر ہے ۔  کسی بھی مضمون کو اس میں ترتیب دینا ایک نہایت ہی مشکل امر ہے۔ اس لیے میری چھوٹی کہانیاں تو اس پر ہی لکھی جاتی تھیں، مگر کسی بھی بڑے مضمون کے لیے میں قلم سے لکھنے کو ہی ترجیح دیتا  تھا۔

پھر ایک دن اتفاق سے میری نظر اردو کے ایک ایسے بلاگ  پر پڑی جہاں کمپیوٹر پر آسانی سے اردو لکھنے کی نویدِ مسرت سنائی گئی تھی۔ میں ایسے کئی دعوے پہلے بھی پڑھ چکا تھا اور مجھے ہمیشہ مایوسی کا سامنا کرنا پڑا تھا، لیکن پھر بھی میں نے اس دعوے کو ایک دفعہ آزمانے کی ٹھانی۔ پاک اردو انسٹالر نامی اس چھوٹے سے سافٹ وئیر  نے میرے لکھنے کے طریقہ کار کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔ جس دن سے میں نے پاک اردو انسٹالر استعمال کرنا شروع کیا ہے، اس دن کے بعد سے   میں نے قلم سے نہیں لکھا ۔  اس دعوے میں ذرہ بھر بھی مبالغہ یا جھوٹ کی آمیزش نہیں ہے۔ پاک اردو انسٹالر کے اس چھوٹے سے سافٹ وئیر کو اپنے کمپیوٹر پر انسٹال کرنے کے بعد میں اب کسی بھی جگہ جیسے کہ مائیکروسافٹ ورڈ، ایکسل، پاور پوائنٹ یا کسی بھی ویب سائٹ  جیسے، بلاگر، ورڈ پریس، فیس بک، ٹوئیٹر اور لنکڈ ان پر نہایت آرام سے اپنے اسی کی-بورڈ کی مدد سے لکھ سکتا ہوں۔ یوں بھی اب تقریباَ تمام کمپیوٹر سسٹمز میں اردو فونٹ ٹائپ پہلے ہی سے موجود ہوتا ہے ، جس کی بدولت اردو میں لکھے ہوئے الفاظ کہیں بھی باآسانی پڑھے جاسکتے ہیں۔ پاک انسٹالر گوگل  ڈاکس پر بھی نہایت آسانی سے چلایا جا سکتا ہے، غرض کے کمپیوٹر کے ذریعے کوئی بھی ایسی جگہ جہاں لکھنے کا کوئی استعمال ہو وہاں آپ اردو لکھ سکتے ہیں۔ نوری نستعلیق کی غیرموجودگی شائد آپ کو تھوڑا پریشان کرے، مگر اردو کے دوسرے فونٹ ٹائپ  اگرچہ دیدہ زیب نہیں ہیں مگر پڑھے جانے کے قابل ہیں۔  

یہ انسٹال کرنے کے بعد میں اب تک اپنی بہت ساری مختصر اور طویل کہانیاں، ناولز، سفرنامے ،اور شاعری کے مسوادات مکمل کرچکا ہوں جو میرے کمپیوٹر اور گوگل کے کلاؤڈ سرورز (گوگل ڈرائیو)  پر محفوظ ہیں۔ اس لیے اب مجھے اس بات کا بھی کوئی خدشہ نہیں کہ کسی حادثے کی صورت میں میرے مسوادت ضائع ہو جائیں گے۔  خاص طور سے میرا  اگلے مہینے چھپ کر آنے والا سفر نامہ اسی سافٹ وئیر کے مرہونِ منت ہے ، کیونکہ میں قلم یا ان پیج پر کبھی بھی اتنی تیز رفتاری اور آسانی سے نہیں لکھ پاتا۔  اس سفر نامے کی تکمیل کی کہانی میں ہماری ویب کے لیے تفصیل سے لکھ چکا ہوں، شوقین حضرات اسے یہاں پڑھ سکتے ہیں۔

یہاں میں اگر پاک اردو انسٹالر کے موجد ایم بلال ایم کی تعریف نا کروں تو یہ ایک ناانصافی ہوگی۔بلال خود اپنا ایک نہایت ہی شاندار بلاگ   mbilalm.com   کے نام سے پچھلے سات سالوں سے چلا رہے ہیں۔لیکن میری نظر میں پاک اردو انسٹالر ایک ایسی خدمت ہے جو کئی دوسرے لکھاریوں کی زندگی میں بہت آسانیاں پیدا کر رہی ہے، جس کے لیے میں ان کا تہہ دل سے مشکور ہوں۔ شکریہ بلال۔ اگر آپ بھی کمپیوٹر پر یا کہیں بھی نہایت تیز رفتاری اور آسانی سے لکھنا چاہتے ہیں تو میری رائے میں پاک اردو انسٹالر سے اچھا ، موثر  اور کارآمد سافٹ وئیر اس وقت کہیں اور میسر  نہیں ہے۔  

پسِ تحریر
پاک اردو  انسٹالر کو ڈاؤ ن لوڈ کرنے ، اسے انسٹال کرنے اور اس کا آسان استعمال سیکھنے کے لیے اس لنک پر کلک کیجئے۔

No comments:

Post a Comment