دسمبر کا مہینہ ویسے تو ٹھنڈ کے لیے مشہور
ہے لیکن ہے اس بار کراچی میں ٹھنڈ کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں ہے۔ اس کی
وجہ تو پتا نہیں لیکن اس وجہ سے دسمبر کی دلآویزی میں نمایاں کمی ہے۔ موسم کے ساتھ
پکوان بھی ابھی تک نظر نہیں آ رہے۔گاجر کے حلوے سے چکن کارن سوپ تک بہت ساری چیزیں
کم جگہوں پر دِکھ رہی ہیں۔ لوگوں نے بھی ابھی تک کھانسنے اور کھنکارنے کا سلسلہ شروع نہیں
کیا اور نا ہی کہیں اونی ٹوپیاں، شالیں، جیکٹ اور سوئیٹر نظر آرہے ہیں۔
خیر موسم کا تو پتا نہیں لیکن خیالات کی
روپر چھائی سرد مہری ویسی کی ویسی ہی ہے، جذبات اور خیالات پر برف جمنے جیسا تاثر
ہے اور لگتا ہے جیسے سوچنے سمجھنے کے تمام سوتے جم کر رہ گئے ہیں۔ کہانیاں، ناول، قصے اور سفرنامہ مکمل کرنے
کا ارادہ ایسے منجمد ہوا ہے جیسے قطبِ شمالی کی ساری برف اور ٹھنڈ اس پر گر گئی
ہے۔مشہورمصنفین پتا نہیں کیسے مسلسل اور اتنا زیادہ لکھ لیتے ہیں، شائد ان کی یہی
خوبی انہیں عام لکھنے والوں سے ممتاز بناتی ہے۔