Wednesday, 25 November 2015

تیز گیند بازی: ایک مختصر تعارف


تیز گیند بازی: ایک مختصر تعارف

دنیائے کرکٹ میں تیز گیند بازوں کو ایک  سو ساٹھ گرام (تقریباَ ساڑھے پانچ اونس ) کی گیند سے تباہی مچاتے دیکھنا ایک نہایت ہی عمدہ منظر ہوتا ہے۔ تیز گیند باز، ہوا اور پچ  (Pitch) کی مدد سے گیند کو گھماتے ہیں۔ جب گیند ہوا میں گھومے تو اسے کرکٹ کی اصطلاح میں سوئنگ  کہتے ہیں ۔ دوسری جانب جب گیند پچ پر پڑنے کے بعد گھومے تو اسے سیم (Seam) کہتے ہیں۔ بلے باز گیند کے اس گھومنے سے بہت پریشان ہوتے ہیں اور ایسی گیند بازی کو کھیلنا نہایت مہارت کا کام ہوتا ہے۔ گیند چاہے ہوا میں گھومے یا پچ پر پڑنے کے بعد، دونوں صورتوں میں جو دو چیزیں سب سے اہم کردار ادا کرتی ہیں ، وہ گیند کی سیم (Seam)  اور گیند کی چمک ہوتی ہے۔ سیم وہ دھاگہ ہوتا ہے جس سے ربر کاک کی گیند چمڑے کے اندر سی جاتی ہے، جیسا کہ  ذیل کی تصویر میں دیکھا جاسکتا ہے ۔جب کہ چمکدار وہ سائڈ ہوتی ہے جسے گیند باز اور ٹیم کے کھلاڑی کپڑے ، تھوک ، اور پسینے کی مدد سے مستقل  چمکاتے رہتے ہیں۔


کرکٹ کی گیند  (تصویر بہ شکریہ وکی پیڈیا)
ایک نئی گیند کی سلائی کیونکہ سخت ہوتی ہے اور اس کی چمک بھی نئی ہوتی ہے  اس لیے نئی گیند کے ہوا اور پچ پر پڑنے کے بعد گھومنے کے امکانات ایک پرانی گیند کے مقابلے میں زیادہ ہوتے ہیں ۔ اسی لیے آپ نے مشاہدہ کیا ہو گا کہ زیادہ تر ٹیمیں گیند بازی کی شروعات اپنے تیز گیند بازوں کے ساتھ کرتی ہیں۔

ان سوئنگ (In Swing)
وہ گیند جو ہوا میں یا پچ پر پڑنے کے بعد ایک داہنے ہاتھ سے کھیلنے والے بلے باز کی طرف گھومے ، اسے ان سوئنگ (In Swing)کہتے ہیں۔ اس قسم کی گیند کو تیز گیند باز، بلے باز کو ایل بی ڈبلیو  اوربولڈ کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

آؤٹ سوئنگ (Outswing)
وہ گیند جو ہوا میں یا پچ پر پڑنے کے بعد ایک داہنے ہاتھ سے کھیلنے والے بلے باز کو چھوڑتے ہوئے باہر کی طرف گھومے ، اسے آؤٹ سوئنگ (Outswing)کہتے ہیں۔یہ گیند بلے بازوں کو سلپ اور وکٹ کیپر کے ہاتھوں کیچ آؤٹ کروانے کے لیے کروائی جاتی ہے۔

ریورس سوئنگ (Reverse Swing)
جیسا کہ ہم اوپر ذکر کر چکے ہیں کہ گیند کی سوئنگ کا دارومدار اس کی سلائی اور چمک پر ہوتا ہے، اس لیے گیند باز اسے چمکاتے رہتے ہیں۔  نئی گیند عام طور سے چمک کے مخالف سمت گھومتی ہے۔لیکن اگر گیند پرانا ہو جائے اور اس کی ایک طرف چمکدار اور دوسری طرف کو بالکل کھردرا اور غیر چمکدار رکھا جائے تو ایسی گیند عموماَ چمک والی سائڈ کی طرف گھومتی ہے۔ گیند کے اس طرح گھومنے کو ریورس سوئنگ کہتے ہیں۔ کیوں کہ عام سوئنگ کے مقابلے میں یہ سوئنگ تھوڑا دیر سے ہوتا ہے،  اس لیے اسے کھیلنا مشکل ہوتا ہے۔

حرفِ آخر
اس پوسٹ میں ہم نے تیز گیند بازوں کے اہم ہتھیار سوئنگ اور سیم کا مختصر تعارف پڑھا۔ اگلی پوسٹ میں ، ہم دیکھیں گے کہ ان سوئنگ کیسے کروائی جاتی ہے۔

Sunday, 21 June 2015

زرداری کی تقریر

آٹا مہنگا موت ہے سستی -  واہ رے زرداری تیری مستی
سعد انوار

پچھلے کچھ دنوں میں پے در پے  واقعات کچھ اس طرح ظہور پذیر ہوئے ہیں کہ لکھنے  کے لیے کافی موضوعات  ہیں۔لیکن جس واقعے نے  سب سے زیادہ تنگ کیا وہ ہمارے آپ کے ہر دلعزیز محترم آصف علی زرداری صاحب  کی پاکستانی فوج   اور  خاص طور سے جرنیلوں کے خلاف تقریر(ہرزہ سرائی اور  الزامات )تھی۔ یوں تو پوری تقریر زہرآلودتھی، مگر کچھ جملے ایسے تھے جنہوں نے مجھ جیسے کمزور و لاچار پاکستانی کے تن بدن میں آگ لگا دی ۔ کچھ اور تو کر نہیں سکتا، صرف لکھے ہوئے لفظوں سے دل کی بھڑاس نکال سکتا ہوں۔ تو یہ مضمون پیشِ خدمت ہے۔

زرداری کے کچھ نُکات:

  • ہمیں مت تنگ کرو، ورنہ ہم اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔
  • آپ نے تین سال رہنا ہے، ہمیں ہمیشہ رہنا ہے۔
  • صرف مجھے پتا ہے کہ پاکستان کو کیا خطرات ہیں۔
  • ہماری کردار کشی کرنا بند کرو، اگر ہم نے شروع کی تو آپ سے برداشت نہیں ہوگی۔
  • اگر ہم اٹھ گئے، تو پورا پاکستان فاٹا سے لے کر کراچی تک بند ہو جائے گا او ر اس وقت تک نہیں کھلے گا جب تک میں نا کہوں۔
آیئے دیکھتے ہیں کہ زرداری صاحب کی اس تقریر کا پسِ منظر کیا ہے۔

پسِ منظر
ضربِ عضب  کے آغاز کے ساتھ ہی اس بات کا تعین کر لیا گیا تھا کہ اس آپریشن کی کامیابی کا بہت بڑا دارومدار شہروں میں موجود  دہشت گردوں  کی خفیہ پناہ گاہوں کے خاتمے پر ہے۔ یوں تو کراچی پچھلی دو دہائیوں سے سیاسی بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، منظم لوٹ مار اور دیگر جرائم کا  شکار ہے، مگر سن 2001 میں دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع ہونے کے بعد یہ شہر مختلف کالعدم تحریکوں کے خطرناک    دہشت گردوں کی  آماجگاہ بن گیا۔شہر کے نواحی علاقوں میں موجود کچی بستیاں دہشت گردوں کے مضبوط ٹھکانے  بنتے گئے ، جہاں بیٹھ کر یہ دہشت گردی کی مختلف  کاروائیوں کے لیے منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ ان منصوبہ بندیوں کا ایک سب سے بڑا پہلو، اپنی کاروائیوں کے لیے  مالی وسائل پیدا کرنا ہے ۔ سیاسی جماعتوں کی زیرِسرپرستی عادی مجرموں کے ساتھ تحریکِ طالبان پاکستان، لشکر جھنگوی اور دیگر کئی کالعدم تنظیموں کا بھی اضافہ ہو گیا۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق کراچی میں 2008 سے اب تک تقریباَ پانچ ہزار سے زائد افراد ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن چکے ہیں۔ دوسری جانب بھتہ خوری ، زکوۃ  ، فطرات، اور قربانی کی کھالوں کا زبردستی وصول کیا جانا، موبائل چوری ، اور کار چوری جیسے جرائم    سے بھرے ہوئے شہر میں  بینک ڈکیتی اور اغوا برائے تاوان جیسے نئے جرائم تیزی کے ساتھ بڑھنے لگے۔ یہ بے بسی اور لاقانونیت سے بھی آگے کی صورتحال ہے، جس کے لیے مقتدر سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین کو کوئی ردِ عمل دینا تھا، مگر سندھ کی بدقسمتی کہ اس کے حکمران نااہل اور نا سمجھ تو تھے ہی، اب لاپرواہ اور غیر ذمہ دار بھی ہوگئے۔

ضربِ عضب اور کراچی آپریشن
ضربِ عضب کے کچھ عرصے بعد پاکستانی فوج نے رینجرز کے ذریعے کراچی میں ایک ٹارگٹڈ آپریشن شروع کیا ، جس میں قبائلی علاقوں سے فرار ہونے والے دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں  میں موجود عسکری ونگز [1]کے خلاف بھی کاروائیاں کی گئیں۔ ان کاروائیوں  کا نشانہ ایک طرف تو سندھ کی حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی   کی سرپرستی میں چلنے والی "پیپلز امن کمیٹی" بنی تو دوسری جانب کراچی کی مضبوط جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے کئی افراد بھی دہشت گردی کی وارداتوں میں  ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار ہوئے۔ سنی تحریک، جماعت اسلامی،  اور اے این پی  کے کئی افراد بھی دہشت گردی  کے الزام میں گرفتار ہوئے۔

یوں توپاکستان آرمی اورحکومتِ سندھ کے درمیان کھٹ  پٹ کا آغاز کراچی آپریشن  شروع ہوتے ہی ہو گیا تھا۔ کیونکہ سندھ حکومت کے مطابق کراچی میں امن ہی امن تھا اور کسی آپریشن کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ مگر اونٹ کی کمر پر آخری تنکا  رینجرز کا سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (SBCA) پر مارا جانے والا چھاپہ  ثابت ہوا۔ نیشنل اکاونٹبلٹی بیورو (نیب) کی ہدایت پر مارے جانے والے اس چھاپے میں پانچ افسران کی گرفتاری کے ساتھ ساتھ دفتری کاغذات کو بھی قانونی تحویل میں لیا گیاہے، جس سے اربوں روپے کے گھپلوں کو پکڑنے کا امکان سامنے آیا ہے۔

اس ادارےپر الزام ہے کہ یہ زمینوں پر قبضے ، سرکاری زمینوں کی غیرقانونی تقسیم و فروخت ، اور ایسی ہی کئی دوسری مالیاتی بدعنوانیوں میں ملوث ہے۔اسی بنا ء پر اس ادارے کے پانچ افسران کو حراست میں لیا گیا ہے اور کئی دیگر افسران زیرِ تفشیش ہیں۔  انہی میں اس ادارے کے سابق سربراہ منظور قادر بھی شامل ہیں۔ منظور قادر( جنہیں پیار سے منظور کاکا بھی کہا جاتا ہے) کو محترم آصف علی زرداری کا دستِ راست بتایا جاتا ہے۔  الزام کی رو سے گھپلوں سے حاصل کیے گئی رقومات کا ایک بڑا حصہ سیاسی جماعت کے عسکری ونگ کی پرورش پر خرچ کیا جاتا ہے۔

ابتدائی پسپائی اورپھر چڑھائی
آل پارٹیز کانفرنس کے اعلامیے کے مطابق ایک نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا گیا تھا، جس کی رو سے صوبے اپنی اپیکس کمیٹیوں کی مدد سے ضربِ عضب کو مدد فراہم کریں گے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے شروع کیے جانے والے کراچی آپریشن  کے بعد  صوبائی اپیکس کمیٹی کے کئی اجلاس ہوئے ، جس میں پاکستان آرمی  کے چیف جنرل راحیل شریف نے بھی شرکت کی۔ ان اجلاسوں میں پاکستان رینجرز کے میجر جنرل بلال اکبر نے کراچی آپریشن میں صوبائی حکومت کی جانب سے  اٹکائے جانے والے روڑوں پر کئی دفعہ تفصیلی روشنی ڈالی، لیکن مسئلہ جوں کا توں ہی رہا۔ 

شنید ہے کہ ایسے ہی ایک اجلاس میں  جب یہ خبر ملی کہ رینجرز کی جانب سے سندھ حکومت کی نااہلی اور نامردی والے تبصروں پر تنگ آئے آصف علی زرداری صاحب منہ توڑ جواب دینے والے ہیں تو میاں نواز شریف نے آصف علی زرداری کو مشورہ دیا کہ   فوج کی جانب سے لگائے گئے نااہلی  کے الزامات کو کڑوا گھونٹ سمجھ کر پی لیں، ورنہ فوج آج گورنر راج لگا کر ہی اٹھے گی۔ زرداری صاحب اس دھمکی سے ڈر گئے اور پسپا ہو گئے۔ ویسے بھی اس وقت تک پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف کوئی بڑی کاروائی عمل میں نہیں لائی گئی تھی۔ حالانکہ نائن زیرو پر چھاپے کے بعد یہ خبر گرم تھی کہ اگلی باری بلاول ہاؤس کی ہے۔ کچھ دنوں پہلے ایسے ہی ایک اجلاس میں جنرل بلال اکبر نے  بھتہ خوری، زمینوں کی غیر قانونی خرید وفروخت، اور ایسی ہی کئی دیگر مالی بدعنوانیوں کی مدد سے  280 ارب روپے کی غیر قانونی  آمدنی کا  تذکرہ کیا ، جس میں سے سندھ کی تمام سیاسی  جماعتیں اپنا حصہ بقدر جثہ  وصول کرتی ہیں۔  

ایک جانب سندھ حکومت  اندھا دھند لوٹ مار میں مصروف تھی اور دوسری جانب شہرِ کراچی پانی جیسی بنیادی سہولت کے لیے ترس رہا تھا۔ اسی دوران سانحہ صفورا میں پچاس معصوم افراد کی شہادت کے بعد بالآخر پاکستان آرمی نے طے کر لیا کہ اب دہشت گردوں کے خلاف کاروائی میں کسی بھی قسم کی رکاوٹ کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔اس کے لیے انہوں نے تمام دہشت گردوں کے مالی وسائل پر ضرب لگانے کا حتمی  فیصلہ کر لیا۔

مشہور ماڈل ایان علی کی منی لانڈرنگ کے الزام میں گرفتاری ، سمندر کے راستے کراچی سے دوبئی جانے والی ایک لانچ پر چھاپہ جس میں اربوں روپے پائے گئے ،یا پھر سندھ کے ایک صوبائی وزیر کے گھر پر چھاپہ  اور اربوں روپے کی برآمدگی کا واقعہ ہو،  ان تمام واقعات کی کڑیاں  دہشت گردوں کے مالی وسائل پر ضرب لگانے والے فیصلے  سے جاملتی ہیں۔

دولت اور اقتدار کے نشے میں مدہوش ہمارے حکمرانوں کو صرف اس وقت تکلیف ہوتی ہے جب ان کے کسی مفاد پر ضرب پڑے، ورنہ یہ سیاسی مفاہمت کے نام پر عوام پر ہونے والے ہر ظلم کے خلاف خاموش رہتے ہیں۔ چاہے ماڈل ٹاؤن میں پولیس کے ہاتھوں قتل ہونے والے  چودہ افراد کا واقعہ ہو یا بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ جیسے عوامی مسائل ہوں، ان کے منہ سے چوں بھی نہیں نکلتی۔ لیکن جیسے ہی ان کے مالی مفاد پر ضرب پڑی ، ان کی چیخیں نکل گئیں اور ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ اسی  کیفیت میں ایسے جملے کہہ گئے جن کا حقیقت سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ہے۔  آیئے دیکھتے ہیں کہ تکلیف میں کہے گئے ان جملوں کی اصل حقیقت کیا ہے۔

ہماری کردار کشی کرنا بند کرو، اگر ہم نے شروع کی تو آپ سے برداشت نہیں ہوگی
 اس جملے کا جواب شیخ رشید بہت اچھے طریقے سے دے چکے ہیں  کہ کردار  کشی اس کی ہوتی ہے جس کا کوئی کردار ہو۔ آپ کون سے دہلی کی جامع مسجد کے امام ہیں۔ میری ناقص رائے میں آپ پاکستان کے کسی بھی شہری سے اپنے بارے میں دو تعارفی کلمات کہنے کی فرمائش کریں ، یقینِ کامل ہے کہ پورا پاکستان آپ کو صرف خائن اور چور   ہی کہے گا۔

اگر ہم اٹھ گئے، تو پورا پاکستان فاٹا سے لے کر کراچی تک بند ہو جائے گا او ر اس وقت تک نہیں کھلے گا جب تک میں نا کہوں۔
اس جملے پر بندہ ہنس ہی سکتا ہے کیونکہ پاکستان پیپلز پارٹی کی سیاسی حالت  اس وقت اظہر من الشمس ہے۔ پنجاب گیا، کے پی گیا، بلوچستان گیا ، اور ابھی کچھ دنوں پہلے گلگت بلتستان کے الیکشن میں شکستِ فاش کھانے والے زرداری صاحب کو زعم ہے کہ وہ پورا پاکستان بند کر سکتےہیں۔ یہ خوش فہمی نہیں بلکہ غلط فہمی ہے۔

ہمیں مت تنگ کرو، ورنہ ہم اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے
یہ جملہ ان کے جرائم کا ایک طرح سے اعتراف ہے ۔ یعنی انہیں کرپشن ، بدعنوانی،لاقانونیت، نااہلی، اور لاپرواہی کے کھلے مظاہرے کرنے دیے جائیں، ورنہ یہ کام کرنے والے اداروں کو بھی کام نہیں کرنے دیں گے۔

آپ نے تین سال رہنا ہے، ہمیں ہمیشہ رہنا ہے
اس جملے پر رؤف کلاسرا اور کئی دوسرے صحافیوں نے ان کو پہلے ہی بہت کچھ کہہ دیا ہے، لیکن ان کے غرور و تکبر کو دیکھتے ہوئے  مجھے لگتا ہے یہ اپنے ملک و قوم کے سامنے رسوائیوں ، بدنامیوں ، اور عبرت کا نمونہ بننے کا تہیہ کر چکے ہیں۔

صرف مجھے پتا ہے کہ پاکستان کو کیا خطرات ہیں۔
حقیقت میں پتا انہیں اپنی شلوارمیں پڑے ازاربند کا نہیں ہوتا مگر باتیں یہ کرتے ہیں اس ملک کودرپیش مسائل اور خطرات کی۔ انہیں یہی نہیں پتا کہ پاکستان کو سب سے زیادہ خطرہ ان کے لالچ، ہوسِ اقتدار اور  نااہل ساتھیوں سے ہے۔  سندھ حکومت پاکستان کے باقی تمام صوبوں  میں موجود صوبائی حکومتوں میں سب سے زیادہ  نااہل اور ناکارہ حکومت ہے۔ مٹھی (تھرپارکر) میں بھوک اور غذائیت کی کمی سےمرتے بچے ہوں یا پانی کی کمی سے تنگ آئے ہوئے کراچی کے شہری ، دونوں کے لیے سندھ حکومت کے پاس کوئی جواب اور کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ جب تک سو پچاس بندہ کسی تکلیف ، بیماری، پریشانی کا شکار نہیں ہو جائے ، سندھ حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی ۔اخبارات، میڈیا، اور دوسری سیاسی جماعتوں کے شور مچانے سے اگر انہیں ہوش آ بھی جائے تو یہ فوٹو سیشن اور نمائشی اقدامات سے بڑھ کر کچھ کرنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے۔

زرداری صاحب کی چالاکی
اپنے مالی ذخائر کو اس طرح بحقِ سرکار ضبط ہوتے دیکھ کر زرداری صاحب نے گھبراہٹ میں  2001 میں فوج کی جانب سے کی جانے والی درخواست کو پیش کیا ہے۔ اس درخواست کے مطابق فوج نے سندھ حکومت سے 900 ایکڑ جنگلات کی زمین ، شہدا کے ورثا ء کے لیے مانگی تھی۔  اس درخواست کو بنیاد بناتے ہوئے زرداری صاحب نے اپنی دانست میں ایک تیر سے دوشکار کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایک جانب تو انہوں نے یہ تاثر دیا ہے کہ پاکستان فوج کی یہ تمام کاروائیاں اسی ایک درخواست پر عمل درآمد کروانے کے لیے کی گئی ہیں، یعنی پاکستان فوج سندھ حکومت کو بلیک میل کر  رہی ہے۔ دوسری جانب سندھ حکومت نے اس درخواست کو فوراَ (تقریباَ 14 سال بعد ) منظور کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ جس سے یہ تاثر ملتا ہے جیسے سندھ حکومت اپنی لیڈر شپ کی مالی بدعنوانیوں  کو چھپانے کے لیے پاکستانی فوج کو رشوت کی پیشکش کر رہی ہے۔


حرف ِآخر
توقع یہ تھی کہ زرداری صاحب کی تقریر کا بہت شدید ردِ عمل سامنے آئے گا۔ سیاسی اعتبار سے فوج کے خلاف بیان دینے کے بعد زرداری صاحب اپنے خوشامدیوں اور مداریوں کے ساتھ تنہا رہ گئے  ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے دیا گیا افطار ڈنر بری طرح ناکام ہوا ہے، جس کے بعد سے ان کے خوشامدی زرداری صاحب کے بیان کی بالکل ایسے ہی توجیہات پیش کر رہے ہیں ، جیسے متحدہ قومی موومنٹ کے اراکین اپنے قائد الطاف حسین کے عجیب و غریب بیانات کی وضاحتیں دیا کرتے ہیں۔
دوسری جانب فوج نے اپنا ردِ عمل لفظوں سے دینے کی بجائے مزید گرفتاریوں سے دیا ہے۔فشریز کے ایک اہم عہدے دار کی گرفتاری اور اس کے اقبالی بیان کی بدولت جس میں انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ وہ گھپلوں سے پیدا کی جانے والی آمدن کا 75 فیصد  بلاول ہاؤ س میں جمع کرواتے تھے، زرداری صاحب کو دن میں تارے دکھا دیے ہیں۔ اس عمل سے یہ صاف ظاہر ہے کہ فوج ، ایپکس کمیٹی میں زیرِ بحث لائے گئے 280 ارب روپوں  کی آمدن کو تہس نہس کیے بغیر  نہیں چھوڑے گی۔


[1] سپریم کورٹ آف پاکستان نے کراچی بدامنی کیس کے نام سے شہرت پانے والے ایک کیس میں یہ رولنگ دی تھی کہ کراچی میں موجود سبھی سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگز ہیں جو بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ کی وارداتوں میں ملوث ہیں۔